نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 کی ابتدائی علامات اعصابی علامات کی شکل میں نظر آتی ہیں اور یہ بخار یا نظام تنفس کی دیگر علامات جیسے کھانسی سے بھی پہلے نمودار ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ 19 کے لگ بھگ 50 فیصد مریضوں میں اعصابی علامات بشمول سرچکرانے، سردرد، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سونگھنے اور چکھنے سے محرومی، seizures، فالج، کمزوری اور پٹھوں میں درد قابل ذکر ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ عام افراد اور طبی ماہرین میں اس حوالے سے شعور اجاگر ہو، کیونکہ نئے نوول کورونا وائرس کا انفیکشن بخار، کھانسی یا نظام تنفس کے مسائل سے پہلے ممکنہ طور پر ابتدا میں اعصابی علامات کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
تحقیق میں ان مختلف اعصابی کیفیات کی وضاحت کی گئی جو کووڈ 19 کے مریضوں میں نظر آسکتی ہیں اور بتایا گیا کہ کس طرح تشخیص کی جائے۔
محققین نے بتایا کہ اس کا فہم مناسب طبی انتظام اور علاج کی کنجی ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیماری پورے اعصابی نظام بشمول دماغ، ریڑھ کی ہڈی اور اعصاب کے ساتھ مسلز پر اثرانداز ہوسکتی ہے جبکہ ایسے متعدد مختلف ذرائع ہیں جس کے ذریعے کووڈ 19 اعصابی نظام کو غیرفعال کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ بیماری متعدد اعضا جیسے پھیپھڑوں، گردوں اور دل کو متاثر کرتی ہے جبکہ دماغ بھی آکسیجن کی کمی یا بلڈ کلاٹس کے نتیجے میں متاثر ہوتا ہے، جس سے فالج یا برین ہیمرج کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
محققین کے مطابق یہ وائرس براہ راست بھی دماغ اور مینینجز کو متاثر کرسکتا ہے جبکہ بیماری کے خلاف مدافعتی نظام کا ردعمل بھی ورم کا باعث بن کر دماغ اور اعصاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
تحقیق کے دوران ماہرین نے نارتھ ویسٹرن میڈیسین میں زیرعلاج تمام مریضوں کا تجزیہ کیا اور تعین کیا کہ ان میں کس قسم کی اعصابی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور ان کا دورانیہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ کووڈ 19 کے اعصاب پر طویل المعیاد بنیادوں پر کس حد تک مرتب ہوسکتے ہیں، تو کچھ مریضوں پر فالو اپ جاری رکھا جائے گا اور تعین کیا جائے گا کہ یہ اعصابی مسائل عارضی ہیں یا مستقل۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کس طرح تشخیص کی جائے اور کووڈ 19 کی اعصابی علامات کا کیسے علاج کیا جائے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل اینالز آف نیورولوجی میں شائع ہوئے۔
ویسے تو مانا جاتا ہے کہ یہ بیماری پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے مگر یہ دماغ سے لے کر پیروں تک کہیں بھی حملہ کرسکتی ہے۔
کبھی تو ایسا نظر آتا ہے کہ مریض ٹھیک طرح سے بات کررہا ہے، چل پھر رہا ہے، کھا پی رہا ہے مگر اس کے خون میں آکسیجن کی سطح اتنی کم ہوچکی ہوتی ہے کہ اگر عام فرد کو اس کا سامنا ہو تو اس کے لیے چلنا، بولنا یا کھانا کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا بلکہ کوما یا موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
یعنی اتنی کمی جو موت کے قریب پہنچادے، اس کا بظاہر کووڈ 19 کے مریضوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا مگر کچھ دن بعد یہ مسئلہ ضرور جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ ایسے مریض اکثر وینٹی لیٹر پر جاتے ہیں ۔