چین نے 1990 کی دہائی میں بی این ایس ایس کا خیال پیش کیا تھا کیونکہ اس کی فوج امریکی فضائیہ کے زیرتحت چلنے والے جی پی ایس پر انحصار کم کرنا چاہتی تھی ۔
2000 میں پہلے بیدویو سیٹلائیٹس کو لانچ کیا گیا جس کی کوریج چین تک محدود تھی، مگر 2003 میں موبائل ڈیوائسز کے استعمال میں اضافے کے بعد چین نے یورپی یونین کے تجویز کردہ گیلیلو سیٹلائیٹ نیوی گیشن سسٹم میں شمولیت کی کوشش کی، مگر پھر بیدویو پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اس سے دستبرداری اختیار کرلی۔
آئی فون کے عہد میں دوسری نسل کے بیدویو سیٹلائیٹس 2012 میں آپریشنل ہوئے جو ایشیا پیسیفک کو کور کرتے ہیں۔
چین نے عالمی کوریج کے لیے تیسری نسل کے سیٹلائیٹس 2015 میں خلا میں بھیجے، اب 35 واں اور آخری سیٹلائیٹ جون میں بھیجا جارہا ہے، جس کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا۔
جی پی ایس کے 31 سیٹلائیٹس خلا میں بھیجے گئے یعنی بیدویو میں زیادہ سیٹلائیٹس ہوں گے۔
چین نے اس منصوبے پر 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، تاکہ چین افواج کا کمیونیکشن نیٹ ورک محفوظ اور کسی بڑے تنازع پر جی پی ایس سے محرومی کا خطرہ نہ ہو۔
منصوبہ مکمل ہونے پر بیدویو کی لوکیشن سروس ایشیا پیسیفک میں 10 سینٹی میٹر تک درست ہوں گی جبکہ جی پی ایس میں یہ شرح 30 سینٹی میٹر ہے۔
آسٹریلین سینٹر فار اسپیس انجنیئرنگ ریسرچ کے ڈائریکٹر اینڈریو ڈیمپسٹر نے بتایا 'بیدویو جی پی ایس کے کئی دہائیوں بعد ڈیزائن کیا گیا تھا، تو اسے جی پی ایس کے تجربے سے بہت کچچھ سیکھنے کا موقع ملا'۔
چین اس نیوی گیشن سسٹم کی سروسز جیسے پورٹ ٹریفک مانیٹرنگ اور قدرتی آفات وغیرہ کو 120 ممالک کو فراہم کررہا ہے۔
جن ممالک کو یہ سروسز فراہم کی جارہی ہیں ان میں سے بیشتر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بھی حصہ ہیں جو کہ چین کی جانب سے موجودہ عہد کی شاہراہ ریشم کو بنانے کے لیے ہے۔
پاکستان اور تھای لینڈ 2013 میں اولین ممالک تھے جو بیدویو سروسز کا حصہ بنے تھے۔
چین کے اندر 2019 میں 70 فیصد سے زیادہ موبائل فونز میں بیدویو کو ان ایبل کردیا گیا تھا جن میں ہواوے، اوپو، شیاؤمی، ویوو اور سام سنگ کے فونز شامل ہیں۔
کروڑوں ٹیکسیوں، بسوں اور ٹرکوں میں بیدویو سگنلز دستیاب ہیں۔
چینی میڈیا کے مطابق چین کے سیٹلائیٹ نیوی گیشن سیکٹر کی مالیت اس سال 57 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوجائے گی، جبکہ منصوبے کی تکمیل کے العان کے بعد سے سیٹلائیت سے متعلق حصص کی مالیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بیدویو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رین چینگ کی نے گزشتہ سال کے آخر میں بتایا تھا کہ یہ نظام ہائی پرفارمنس انڈیکٹر، نئے ٹیکنالوجی سسٹمز سمیت متعدد مقاصد کے لیے استعمال ہوسکے گا۔
ان کا کہنا تھا 'جون 2020 سے قبل ہم 2 مزید سیٹلائیٹس کو زمین کے مدار میں چھوڑے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، جس کے ساتھ بیدویو تھری سسٹم مکمل ہوجائے گا'۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں زیادہ اسمارٹ، زیادہ قابل رسائی اور انٹیگریٹڈ سسٹم کو 2035 کو بیدویو کا حصہ بناکر 2035 تک آن لائن کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا اہم خلائی انفراسٹرکچر کے ذریعے دنیا کو پبلک سروسز فراہم کی جاسکیں گی اور بیدویو سسٹم دنیا کی خدمت اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔
چین کی جانب سے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران خلائی پروگرام کو بہت تیزی سے ترقی دی گئی ہے اور خودانحصاری کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیکنالوجیز تیار کی گئی ہیں اور اس وقت فائیو جی ڈیٹا پراسیسنگ جیسے شعبوں میں بھی بالادستی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
2003 میں چین دنیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا جس نے خلا میں انسان بردار مشن بھیجا تھا اور اس کے بعد بھی تجرباتی خلائی اسٹیشن تعمیر کیا جبکہ چاند کی سطح پر مشن بھی بھیجے۔
چین کی جانب سے مکمل فعال مستقل اسپیس اسٹیشن مستقبل میں بھیجنے کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے جبکہ مریخ پر مشن اور چاند پر انسانوں کو بھیجنے کا بھی ارادہ ہے۔
گزشتہ سال بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ چین کا انتہائی جرات مندانہ منصوبہ ہے جو کہ اس ملک کے لیے بے مثال کامیابی بھی ہے جو کہ پہلے ہی خلائی کمرشل پرواز، مصنوعی سورج سے سستی توانائی اور انسانی ساختہ مصنوعی چاند پر بھی کام کررہا ہے۔
اس دوسرے عالمی نیوی گیشن سسٹم کے لیے کمپنیوں کو منفرد انفراسٹرکچر، میٹریلز، پرزے اور سافٹ وئیر تیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس حوالے سے چینی کمپنیاں ایسی ڈیوائسز تیار کررہی ہیں جو بیدویو سے 2020 تک مطابقت پیدا کرسکیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ بیدویو پر کام کرنے والی سالانہ ڈیڑھ کروڑ چپس صرف خودکار گاڑیوں میں ہی استعمال ہوں گی۔
چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور پرکشش آٹو مارکیٹ ہے اور چینی حکومت چاہتی ہے کہ تمام گاڑیان 2020 میں بیدویو کو استعمال کریں، جس کے لیے بڑی کار کمپنیاں جیسے ٹویوٹا اور واکس ویگن وغیرہ کام بھی کررہی ہیں۔
سام سنگ، ہواوے اور شیاﺅمی کے اسمارٹ فونز میں بھی اس ٹیکنالوجی کو شامل کرنے پر کام ہورہا ہے جبکہ عالمی سطح پر اسمارٹ فونز چپس تیار کرنے والی امریکی کمپنی کوالکوم کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے چینی جی پی ایس سسٹم کو سپورٹ کررہی ہے۔
چین اس ٹیکنالوجی کو حکومتی طور پر تیار ہونے والے طیاروں کے لیے گزشتہ سال سے استعمال کررہی ہے۔