کیا ہمارے دندان ساز صدر کو کچھ پتا نہیں؟


آپ وکیلوں سے یہی توقع وابستہ رکھتے ہیں کہ وہ ہر بات سوچ سمجھ کر ہی بولیں گے اور بنا سوچے تو کوئی بھی بات منہ سے نہیں نکالیں گے۔ مگر کچھ مواقع پر منہ سے بنا سوچے سمجھے نکلی باتیں معقول باتوں پر غالب آجاتی ہیں۔
سپریم کورٹ میں چلنے والے جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کی کارروائیوں سے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق بینچ کے ایک قابل جج نے کہا کہ صدر کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس بارے میں ایک آزاد رائے ضروری تھی کہ آیا انہیں موصول ہونے والی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کرنے لائق ہے بھی یا نہیں۔
اس پر حکومت کے وکیل نے عدالت کے سامنے ایک ایسی بات کہی جس نے صدیوں پرانے آئینی و قانونی طریقہ عمل کا ستیا ناس کرکے رکھ دیا۔
انہی وکیل نے ایک ہی لمحے میں ہمارے 1973ء کے آئین میں درج اس تحفظ پر لکیر پھیر دی جو صدر کو کسی بھی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی کی جانب سے دی گئی سزا معطل کرنے، کم کرنے یا معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ایک دندان ساز رحم کی اپیلوں کی صورت میں کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے؟ یا پھر کیا سابق کرکٹر صدر کو منظوری کے لیے بھیجی جانے والی کسی بھی سمری پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر اپنا ذہن دوڑانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے؟
وکیل نہ صرف قانون کے اسباق بلکہ اپنی تاریخ بھی بھول بیٹھے ہیں۔ انہیں 1965ء کا سال یاد ہونا چاہیے جب ایک دندان ساز نے بھرپور انداز میں پاکستان کی صدارت کے لیے انتخاب لڑا تھا۔ اس امیدوار کا نام محترمہ فاطمہ جناح تھا جن کے مدِمقابل جنرل ایوب خان تھے۔ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتیں تو دانت میں سوراخ بھرنے اور دانت نکالنے کے علاوہ صدارت کے سارے اختیارات بھی انہیں حاصل ہوجاتے۔
ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔