’میں نے آج تک اتنا پُر مزاح ڈراؤنا کھیل تماشا نہیں دیکھا‘
عالمی وبا پھیلتی جا رہی ہے، ٹڈی دَل فصلیں ہڑپ کر رہی ہیں اور ایندھن کا کال دستک دے رہا ہے، اس بیچ ہمارے لیڈران اپنے ترجمانوں اور نمائندوں کے ہمراہ جب اپنے سیاسی مخالفین کو نقصان پہچانے کے لیے جس طرح کا مضحکہ خیز انداز اپناتے ہیں، اسے دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ کیا انہیں اس کا اندازہ بھی ہے۔ مذکورہ مسائل انتہا کوپہنچنے لگے ہیں اور آئندہ مہینوں میں ان کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک بات تو واضح کرتے چلیں کہ پاکستان کی معیشت rent-seeking رویے کا شکار ہے یعنی ایک ایسا منافع بڑھانے والا رویہ جس کے تحت مہربانیاں بٹورنے کے لیے چند محدود کھلاڑیوں کے حق میں کھیل کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ اور یہاں معاملہ صرف موجودہ حکومت میں زیرِ تفتیش (چینی، توانائی، گندم اور آئل ریفائننگ اور مارکیٹنگ کے) شعبہ جات تک محدود نہیں ہے بلکہ سیمنٹ، ٹیکسٹائل، کھاد، ادویات، آٹو موبائل اور فنانشل سروسز کے شعبوں پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔
ملک کے کسی بھی کونے میں کھڑی بڑے پیمانے کی صنعتیں حکومتی ٹھیکوں، پرائیسنگ اور ٹیکس نظام کے بل بوتے پر چلتی ہیں۔ شاید سب کا یہ حال نہ ہو لیکن ایسی گنی چنی چند ایک ہی صنعتیں ہیں۔
اگر کوئی ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس مال کی سپلائی بند کرسکتے ہیں جس کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی ہے، ممکن ہے کہ ایسا ہی آج کل کچھ آئل مارکیٹنگ کے شعبے میں ہو رہا ہے۔
جنوری 2015ء کا 'پیٹرول بحران' یاد ہے؟ جب سپلائی چین ٹوٹتی ہے تو یہی سب ہوتا ہے۔ شدید لوڈشیڈنگ کے دن یاد ہیں؟ جب توانائی کے شعبے کے مالی معاملات اور ایندھن کی سپلائی چین کے تسلسل میں خلل آئے تو یہی سب ہوتا ہے۔ ایسے تمام مواقع پرحکومت کی ماہرانہ انتظام کاری درکار ہوتی ہے۔
اگر کوئی بھی حکومت کرایوں کو گھٹانے کے لیے نظام کی تبدیلی چاہتی ہے تو درست اصلاحات کو مرتب دینے کے لیے تھوڑے بہت ہنر کی ضرورت پڑے گی۔ یہی کچھ 2011ء کے بعد ادویات کے شعبے میں ہوا کہ جب دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت میں قائم کیا گیا جو قیمتوں میں اضافے کی خواہاں کمپنیوں کے گلے کا کانٹا بن گیا۔
تو اگر آپ گزشتہ چند ماہ سے چینی، گندم، نجی بجلی گھروں، اور اب آئل ماریکیٹنگ کے معاملات میں تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں آنے والی تیزی اور شدت کو لے کر کچھ الجھن کا شکار ہیں تو یہاں آپ کی یہ الجھن دُور کیے دیتے ہیں۔
دراصل یہاں معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب کبھی کوئی معاملہ حکومت کے نمائندگان کو سمجھ نہیں آتا یا ان کے قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو یہ ایک 'مافیا' کو پکارتے ہیں اور صنعت کے کھلاڑیوں پر چڑھائی کردیتے ہیں۔
مثلاً اپریل میں جب نجی بجلی گھروں سے متعلق رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو صدرِ مملکت نے کہا کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ کس طرح ایک مافیا نے اس ملک کا گینگ ریپ کیا ہے۔ یہ لفظ دیگر افراد نے بھی بار بار استعمال کیا اور اچانک سے ان باتوں کا سلسلہ تھم گیا اور پھر نہ ہم نے نجی بجلی گھروں سے متعلق رپورٹ کے بارے میں کسی سے کچھ سنا نہ آپ نے۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com