افسانہ: زرد شام

مجھے ایک شام تلاشنی تھی۔ ایک شام جو میں کبھی کھل کر جی نہ سکی تھی، ایسی شام جو میری دوشیزہ نگاہوں سے بنا چھوئے، بنا جیے گزر گئی تھی۔ میں صدیوں کی مسافتیں طے کرتی کتنی دُور سے آئی تھی مگر وہ شام جو بہت پیچھے سے مجھے اکثر شدت سے صدا دیتی تھی، وہ کبھی نہ مل سکی۔
سرسبز گھاس سے بھرے میدان بدلتے موسم کے سبب دُور دُور تک پیلے پتوں سے بھر رہے تھے۔ خاکروب روز صبح سرخ اینٹوں پر جھاڑو پھیر کر صاف کرتے، شام تک تمام روشیں خشک مرجھائے اور اداس پتوں سے پھر سے بھر جاتیں۔ سورج کی چندھیا دینے والی دھوپ ٹھنڈی پڑ چکی تھی، جگہیں اور مقام روشن روشن نہیں دھندلے سے دکھتے۔ سردی لباس میں گھس کر چٹکیاں کاٹنے لگی تھی، نرم گرم شالیں لپیٹنے کا موسم تھا۔
میں سرِشام اپنے دفتر سے نکلتی، خزاں سے اٹا دن برہنہ سر الوداعی بوسے کے لیے میرا منتظر کھڑا ملتا۔ زردی ٹوٹ کر درختوں پر اتر رہی تھی، ہوائیں پورب سے پچھم تک وجد میں رہتیں، مستی میں سر دھنتیں، رقص کرتیں، ناچتیں، میرے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتیں۔
شام کا سرخی مائل دھندلکا سہ پہر سے ہی زمین سے لپٹنے لگتا۔ میں دفتر سے ہاتھ میں کچھ قلم اور کتابیں لیے باہر قدم دھرتی تو پتے میرے قدموں کے نیچے چرمرانے لگتے۔ دم مرگ آہیں کراہتیں، دہائی دیتیں 'مجھے کچھ لمحوں کی زندگی اور بخش دو!' اور میں ان کے نوحے سنتی کبھی ان کے کنارے رک جاتی، ہاتھ میں اٹھاتی، سہلاتی، گال سے لگاتی!
کھلے دھنک رنگ مسکراتے پھولوں کو بہاروں اور خوشبوؤں کو سونپ کر میں جاسکتی تھی مگر تھکی ہاری جوانیاں، شکستہ حالی، دم مرگ نفوس مجھے جکڑ لیتے تھے۔ محرومیاں میرے قدموں کو زنجیر کر دیتیں۔ میں خزاؤں کو ٹھکرا کر کبھی نکل نہ سکی تھی۔ سو اکثر سوکھے پتوں کے کنارے ٹھہر کر میں شامِ غریباں کے کچھ مرثیے ضرور سنتی، بنا بولے بنا آواز پیدا کیے میں کچھ سسکیاں بھر لیتی، درد کا سینے سے دل اور دل سے روح تک کا ایک سُوٹا لے لیتی۔ میری لال اونی چادر سوکھی گھاس میں پھنس جاتی، میرے بال ہوا کی اٹھکیلیوں سے الجھ الجھ جاتے۔
ایسی ہی اک شام میں کاغذوں اور قلموں کو سینے سے لگائے سرد ہوا کی سرگوشیاں سنتے، شام کا حزن پیتے جب برآمدے کی سیڑھیوں سے اُتری تو وہ یہیں املتاس کے پیلے درختوں کے جھنڈ کے قریب بہتی ٹھنڈی ندی کے پاس کھڑا میری راہ تکتا تھا۔
میرے اندر سے ایک سسکی سی گونجی 'کیا اسے آج ہی ملنا تھا؟ جب زندگی خزاؤں کے صفحات پر اپنی نشانی ثبت کرچکی تو وہ بہار کا سندیس لے کر کیوں میرے راہ گزر میں آیا تھا؟'
'میں تو خود سپنوں کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے روشنی کی کوئی رمق لوٹا دو!'
ہم سوکھتے درختوں، لال، پیلے اور خاکی پتوں سے بھری شاہراہ کی ایک پنگڈنڈی پر ساتھ بیٹھے تھے۔
صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog
پر دیکھ سکتے ہیں۔