افسانہ: زرد شام
مجھے ایک شام تلاشنی تھی۔ ایک شام جو میں کبھی کھل کر جی نہ سکی تھی، ایسی شام جو میری دوشیزہ نگاہوں سے بنا چھوئے، بنا جیے گزر گئی تھی۔ میں صدیوں کی مسافتیں طے کرتی کتنی دُور سے آئی تھی مگر وہ شام جو بہت پیچھے سے مجھے اکثر شدت سے صدا دیتی تھی، وہ کبھی نہ مل سکی۔
سرسبز گھاس سے بھرے میدان بدلتے موسم کے سبب دُور دُور تک پیلے پتوں سے بھر رہے تھے۔ خاکروب روز صبح سرخ اینٹوں پر جھاڑو پھیر کر صاف کرتے، شام تک تمام روشیں خشک مرجھائے اور اداس پتوں سے پھر سے بھر جاتیں۔ سورج کی چندھیا دینے والی دھوپ ٹھنڈی پڑ چکی تھی، جگہیں اور مقام روشن روشن نہیں دھندلے سے دکھتے۔ سردی لباس میں گھس کر چٹکیاں کاٹنے لگی تھی، نرم گرم شالیں لپیٹنے کا موسم تھا۔
میں سرِشام اپنے دفتر سے نکلتی، خزاں سے اٹا دن برہنہ سر الوداعی بوسے کے لیے میرا منتظر کھڑا ملتا۔ زردی ٹوٹ کر درختوں پر اتر رہی تھی، ہوائیں پورب سے پچھم تک وجد میں رہتیں، مستی میں سر دھنتیں، رقص کرتیں، ناچتیں، میرے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتیں۔