امریکا کی نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس سب سے پہلے ناک کے اندرونی نظام کو متاثر کرتا ہے اور پھر زیریں نظام تنفس میں اپنی نقول بناتا ہے، تاہم اکثر اوقات یہ پھیپھڑوں میں پھنس جاتا ہے اور سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے جن میں جان لیوا نمونیا بھی شامل ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ناک وہ ابتدائی مقام ہوتا ہے جہاں پھیپھڑوں کے امراض پھیلنا شروع ہوتے ہیں، اگر نتھوں کی گزرگاہ کو فیس ماسک سے تحفظ ملے گا وہاں وائرس کا اامکان بھی کم ہوگا۔
تحقیق میں ایسی نئی تفصیلات بھی بیان کی گئیں کہ کس طرح کووڈ 19 کی بیماری پیشرفت کرتی ہے اور اس کی شدت بڑھتی ہے۔
لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات دریافت کیا گیا کہ وائرس آسانی سے ناک کے خلیات کو متاثر کرتا ہے مگر حلق کے خلیات کو اس طرح متاثر نہیں کرتا اور پھیپھڑوں کے خلیات میں یہ شرح اس سے بھی کم ہوتی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ناک کے خلیات میں ایس 2 پروٹین زیادہ ہوتے ہیں جن سے یہ وائرس خود کو منسلک کرتا ہے اور اسی سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ناک اس انفیکشن کا پہلا مرکز کیوں بنتا ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ سانس کے کچھ خلیات وائرس سے متاثر نہیں ہوتے جو حیران کن تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم عناصر تعین کرتے ہیں کہ سانس کی گزرگاہ کے خلیات میں یہ بیماری کیسے بڑھے گی اور اسی سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کچھ افراد دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں اور کیوں کچھ میں علامات نظر نہیں آتیں۔
محققین کے مطابق یہ ممکن ہے کہ دیگر کورونا وائرسز سے پہلے متاثر ہونے والے افراد کو نئے نوول کورونا وائرس سے کسی حد تک امیونٹی حاصل ہوگئی ہو۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سیل میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل کینیڈا کی میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن میں کپڑے سے بنے عام فیس ماسکس کو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے موثر قرار دیا گیا، خصوصاً ایسے ماسک جن میں سوتی کپڑے کی کئی تہیں استعمال کی گئی ہوں، جو وائرل ذرات کو ماحول میں پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں۔
درحقیقت محققین کا کہنا تھا کہ کپڑے کے ماسک نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ 99 فیصد وائرل ذرات کو بلاک کردیتے ہیں۔