نیب نے بابر اعوان کی بریت کے خلاف دائر اپیل پر دلائل کے لیے وقت مانگ لیا
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نندی پور ریفرنس میں پارلیمانی امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر کو بری کرنے کے خلاف اپیل پر دلائل دینے کے لیے وقت طلب کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے نیب کی اپیل پر سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔
گزشتہ ماہ کے آغاز میں جب عدالت نے اپیل پر سماعت کی تھی تو نیب کا کوئی بھی پراسیکیوٹر کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: نندی پور ریفرنس میں راجا پرویز اشرف کی بریت کی درخواست مسترد
گزشتہ روز نیب پراسیکیوٹر نے اس کیس میں دلائل دینے کو تیار نہیں تھے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کیس کی سماعت کو ملتوی کرے اور دلائل تیار کرنے کے لیے انہیں وقت دے۔
اسی بینچ نے سابق سیکریٹری برائے قانون و انصاف مسعود چشتی اور وزارت قانون کے دیگر سابق عہدیداروں کی جانب سے بھی اسی کیس میں بریت کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی تھی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشاد ملک نے نندی پور ریفرنس میں بابر اعوان کو بری کردیا تھا۔
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، مسعود چشتی اور دیگر سابق عہدیداروں سمیت دیگر ملزمان پر اب بھی اس معاملے میں مقدمہ چل رہا ہے۔
احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشاد ملک نے نندی پور ریفرنس میں بابر اعوان کو بری کردیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر سے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ جب تمام ملزمان کے خلاف الزامات یکساں ہیں تو بابر اعوان کو کیسے بری کردیا گیا۔
عدالت نے کیس پر سماعت کو 25 جون تک کے لیے ملتوی کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: نندی پور ریفرنس: راجا پرویز اشرف، بابر اعوان و دیگر ملزمان پر فردِ جرم عائد
نندی پور پاور پراجیکٹ کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 27 دسمبر 2007 کو 32 کروڑ 09 لاکھ ڈالر کی لاگت سے منظور کیا تھا۔
منظوری کے بعد 28 جنوری 2008 کو ناردرن پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ اور چین کی ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے.
وزارت پانی و بجلی نے جولائی 2009 میں معاہدے کے شیڈول کے مطابق وزارت قانون سے اس منصوبے کے بارے میں قانونی رائے طلب کی تھی لیکن ملزم نے بار بار اس کی پیش کش سے انکار کردیا تھا۔
وزارت پانی و بجلی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بروقت کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے میں ناکام رہی اور معاملہ زیر التواء رہا تھا۔