برطانوی یونیورسٹی پہلے ہی سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی فارماسیوٹیکل کمپنی آسترا زینکا کے ساتھ ویکسین کے ڈوز تیار کرنے کے لیے شراکت داری کرچکی ہے اور دنیا کو اس وبائی مرض سے بچانے کے لیے مختلف اداروں جیسے سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی)، کولیشن آف ایپی ڈیمیک پریپرڈنس انوویشن (سی ای پی آئی) اور گاوی ویکسین الائنس کو بھی ساتھ ملایا گیا ہے۔
بل گیٹس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کروڑوں ڈالرز ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اور توقع ہے کہ پہلی کھیپ 2020 کے آخر تک مختلف ممالک میں بھیجنے کے لیے تیار ہوگی۔
ایس آئی آئی کے ساتھ ایک الگ معاہدے کے تحت ایک ارب ڈوز غریب اور متوسط ممالک کو فراہم کیے جائیں گے جن میں سے 40 کروڑ ڈوز 2021 سے پہلے سپلائی ہوں گے۔
آسترا زینکا کے مطابق مجموعی طور پر اس ویکسین کے 2 ارب ڈوز تیار ہوں گے جو وبا کے دوران بغیر منافع کے ممالک کو فراہم کیے جائیں گے۔
75 کروڑ کی سرمایہ کاری بل گیٹس کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد کووڈ 19 ویکسین کو تیاری کے ساتھ فراہم کرنے کو یقینی بنانا ہے۔
اپریل میں بل گیٹس نے بل گیٹس نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی 7 بہترین ویکسینز کے لیے فیکٹریوں کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔
بل گیٹس نے کہا کہ تیاری کے مراحل سے گزرنے والی متعدد ویکسینز میں سے 7 بہترین کا انتخاب اور ان کی تیاری کے لیے فیکٹریاں تعمیر کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا 'اگرچہ ہم آخر میں ان میں سے 2 کا ہی انتخاب کریں گے، مگر ہم تمام ویکسینز کے لیے الگ الگ فیکٹریوں کی تعمیر پر سرمایہ لگائیں گے، ہوسکتا ہے کہ اربوں ڈالرز ضائع ہوجائیں مگر آخر میں موثر ترین ویکسین کی فیکٹری کے لیے وقت ضرور بچ جائے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی تیاری اور فیکٹری کی بیک وقت تعمیر کرنا، ویکسین کو تیزی سے تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کئی ماہ ضائع ہونے سے بچالیں گے کیونکہ اس وقت ہر مہینہ قیمتی ہے۔
درحقیقت ابھی ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین موثر ثابت ہوگی جس کے ابتدائی نتائج رواں ماہ یا جولائی کے شروع میں سامنے آسکتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اس ویکسین کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں 10 ہزار بالغ رضاکاروں کو شامل کیا جائے گا اور آسترا زینکا کا کہنا تھا کہ آخری مراحل میں ترائلز متعدد ممالک میں کیے جائیں گے۔
آسترا زینکا نے تسللیم کیا کہ ویکسین کی افادیت کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا ممکن نہیں مگر اس پر پیشرفت جاری رکھی جائے گی۔
دوسری جانب ویکسین کی تیاری میں مصروف برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کو عجیب مشکل کا سامنا ہے اور وہ ہے مریضوں کی تعداد بہت تیزی سے کمی آنا۔
درحقیقت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے کمی آرہی ہے کہ ویکسین کی کامیابی کے امکانات گھٹ کر 50 فیصد رہ گئے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ایڈریان ہل نے مئی کے آخر میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ کووڈ 19 کی ویکسین کی تیاری کے لیے اب جنگ وائرس کے غائب ہونے اور وقت کے خلاف ہے۔
ٹیلیگراف سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں وائرس کے شکار افراد کی تعداد میں بہت تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے تجرباتی ویکسین چاڈ آکسل این کوو 19 کو موثر طریقے سے آزمانا ممکن نہیں رہے گا۔
انہوں نے کہا 'اس وقت 50 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ ہم کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرسکیں گے'۔
ایڈم ہل کے ساتھی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر سر جان بیل نے بھی ٹائمز آف لندن سے بات کرتے ہوئے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا 'ہم اب لندن میں ٹرائل شروع کرنے کے حوالے سے پریقین نہیں'۔
برطانوی دارالحکومت میں نئے مریضوں میں کمی ملک کے دیگر حصوں سے بھی زیادہ تیزی سے آرہی ہے۔
اپریل میں اس ویکسین کی آزمائش انسانوں پر شروع کی گئی تھی تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہ وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں مگر اب سائنسدان فکرمند ہیں کہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوجائے گا کہ یہ ویکسین کیا واقعی لوگوں کو وائرس سے بچاسکتی ہے یا نہیں، کیونکہ برطانیہ میں نئے مریضوں کی بہت کم ہوگئئی ہے۔
سائنسدانوں کو توقع ہے کہ وہ انسانی آزمائش کو ستمبر تک مکمل کرکے ویکسین کو عام استعمال کے لیے متعارف کرادیں گے۔
23 اپریل سے اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع ہوئی اور ابتدائی مرحلے میں ڈیڑھ ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔