تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا کہ کم از کم بھی یہ تعداد 30 فیصد ہوسکتی ہے بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ 40 سے 50 فیصد کیسز بغیر علامات والے ہوتے ہیں۔
نظام تنفس کے کسی بھی وائرس میں اس طرح کے مریض بالکل منفرد ہیں کیونکہ بیشتر وائرسز جب کسی کو متاثر کرتے ہیں تو ساتھ ہی علامات نظر آتی ہیں مگر سارس کوو 2 بالکل خاموشی سے بھی اپنے میزبان کو متاثر کرسکتا ہے اور اسے وبائی مہم کے لیے پیادے کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے جو تعداد دریافت کی وہ حیران کن حد تک زیادہ تھی اور اس سے ملتے جلتے کسی بھی وائرس میں کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے اب تک شائع اور غیر مطبوع ایسے تحقیقی کام کو تلاش کیا جو بغیر علامات والے مریضوں پر کیا گیا تھا اور دنیا بھر میں کووڈ 19 کے لیے ٹیسٹ ہونے والے 16 مختلف گروپس پر توجہ مرکوز کی گئی۔
ان گروپس میں آئس لینڈ کے 13 ہزار سے زائد افراد بھی شامل تھے جبکہ اٹلی کے ایک قصبے، ڈائمنڈ کروز شب کے مسافر، بوسٹن اور لاس اینجلس کے بے گھر افراد کی پناہ گاہوں میں آنے والے افراد، قیدی، کالج کے طالبعلم اور ایک امریکی علاقے کے نرسنگ ہوم کے رہائشیوں پر ہونے والے کام کا بھی تجزیہ کیا گیا۔
سائنسدانوں نے 5 ایسی تحقیقی رپورٹس کو بھی دیکھا جس میں ٹیسٹوں کے بعد لوگوں کی مانیٹرنگ کے دوران دریافت کیا گیا تھا کہ بغیر علامات والے ایسے افراد کی بہت کم تعداد میں وائرس کی تصدیق کے بعد علامات دیکھی گئیں۔
اس سے محققین کو ایسے افراد کو الگ کرنے میں مدد ملی جن میں علامات ٹیسٹ کے بعد نظر آئیں اور باقی وہ جن میں کبھی بھی علامات نہیں دیکھی گئیں۔
سائنسدانوں کے لیے باعث فکر یہ دریافت تھی کہ بظاہر صحت مند مگر وائرس سے متاثر یہ افراد بھی اسی طرح وائرس کو پھیلا سکتے ہیں جیسے وہ افراد جن میں علامات نمودار ہوتی ہیں۔
آسان الفاظ میں بظاہر تو یہ افراد بیمار نظر نہیں آتے مگر ممکنہ طور پر متعدی وائرس کا اتنا خطرناک بوجھ لیے پھرتے ہیں کہ دیگر تک اسے منتقل کرسکتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ فکرمندی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علامات نظر نہ آنے کے باوجود یہ وائرس لوگوں کے جسموں کو خاموشی سے بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ڈائمنڈ کروز شپ کے 331 مسافروں میں شامل ایسے 76 افراد جن میں وائرس کی تصدیق ہوئی مگر علامات ظار نہیں ہوئیں، ان کے پھیپھڑوں کے سی ٹی اسکینز کیے گئے اور لگ بھگ 50 فیصد میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کو نقصان پہنچنے کے آثار دریافت ہوئے۔
محققین کے مطابق جو لوگ بغیر علامات کے وائرس کو جسم کے اندر لے کر پھرتے ہیں، ان کے جسموں کے اندر بھی بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
جنوبی کوریا میں ایک محدود تحقیق میں بھی ایسے 10 افراد کا جائزہ لینے کے بعد اسی طرح کے نتائج دریافت کیے گئے تھے۔