پاکستان کے پاس اب بھی کورونا سے فائدہ اٹھانے کا پورا پورا وقت ہے
کورونا وائرس نے جو ایک بات بالکل واضح کردی ہے وہ یہ کہ اب یہ کہیں نہیں جانے والا۔ وائرس ڈیرہ ڈالنے ہی دنیا میں آیا ہے اور ہمیں خود کو بچانے کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔
اس بحران نے یہ بات بھی اجاگر کردی ہے کہ ہماری صحت کا ماحولیاتی نظام کی صحت سے تعلق کس قدر گہرا ہے۔ اگر ہم صحتمند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنی زمین کو محفوظ بنائیں اور قدرتی وسائل جو ہمارے پاس موجود ہیں ان کو اس طریقے سے استعمال کریں کہ ان میں خرابی ہونے کے بجائے بہتری آئے۔
ایک طرف جہاں حکومتیں عالمی وبا سے جنگ لڑنے میں مصروف ہیں تو وہیں دوسری طرف ماہرین کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے پیٹرن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ مطالعہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کی اب تک کی تحقیق سے فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے درمیان تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ صحتِ عامہ میں بہتری لانے کے سفر کی ابتدا فضائی صفائی کے ساتھ کی جانی چاہیے۔
تھرپارکر میں کوئلے سے کُل 3 ہزار 700 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے مجوزہ 9 پلانٹوں کی ہی مثال لیجیے۔ سندھ کے اس حصے میں انسانی ترقی کے بدترین اشاریے ملتے ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ آن اینرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے مطالعے بعنوان 'تھر میں مجوزہ کوئلے کی کان کنی اور پاور پلانٹس کے فضائی معیار، صحت پر زہریلے اثرات' نے صورتحال کی ہولناک تصویر پیش کی ہے۔
مطالعے میں درج اندازوں کے مطابق تھر میں موجود کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کی 30 سالہ آپریشنل مدت کے دوران آلودہ ہوا سے 29 ہزار افراد ہلاک ہوسکتے ہیں، بچوں میں دمے کے 19 ہزار 900 کیسز ہوسکتے اور 32 ہزار قبل از وقت ولادتیں ہوسکتی ہیں جبکہ زیادہ تر تھریوں کو پھیپھڑوں اور سانس کی تکالیف، ذیابیطس اور دماغ کی رگ پھٹ جانے جیسے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنی پڑسکتی ہے۔
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@