'کورونا نے ہمارے گلتے سڑتے تعلیمی نظام کو تو جیسے چکنا چور کردیا'
پچھلے ہفتے سندھ کے وزیرِ تعلیم سعید غنی نے وفاقی حکومت کی تقلید کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ کورونا وائرس کے باعث رواں سال کوئی امتحان نہیں لیے جائیں گے اور پہلی سے بارہویں جماعت کے تمام طلبا کو پچھلے امتحانات کے نمبرز میں 3 فیصد اضافے کے ساتھ اگلی جماعتوں میں پروموٹ کردیا جائے گا، بشمول ان طلبا کے جو پچھلی جماعتوں میں کسی وجہ سی فیل ہوگئے تھے۔
اس خبر سے جہاں صوبے بھر کے بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں والدین اور اساتذہ کی اکثریت نے اسے ایک مثبت اور بر وقت فیصلہ قرار دیتے ہوئے سکھ کا سانس لیا۔
تاہم کئی نکتہ چین ایسے بھی ہیں جو اسے ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
پروفیسر شاہدہ قاضی، جو گزشتہ 40 برس سے درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں ان کی رائے میں وزارتِ تعلیم کو ہر حال میں امتحان لینے چاہیے تھے، پھر چاہے اس کے لیے 4 سے 5 ماہ انتظار ہی کیوں نہیں کرنا پڑتا۔ ان کے بقول سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی ویسے ہی ناپید ہے ایسے میں وہ بچے جو کم از کم امتحانات کے دباؤ میں کتابیں اٹھا لیتے تھے، اب پڑھنے لکھنے سے بالکل ہی بے بہرہ ہو جائیں گے۔ دوسری طرف سارے سال امتحانات میں کامیابی کے لیے عرق ریزی کرنے والے طلبا الگ بددل ہوکر کتابیں طاق میں رکھ دیں گے۔
عامر غنی جو ایک مقامی کالج میں ریاضی کے استاد ہیں، کہتے ہیں کہ امتحانات تاخیر سے لے کر تدریسی سال 6 ماہ سے سال بھر دیر سے بھی شروع کیا جاسکتا تھا۔ ویسے بھی اگلے کچھ ماہ، وبا کے باعث تعلیمی ادارے کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔
مزید پڑھیے: حکومت سندھ کا یکم جون سے تعلیمی ادارے نہ کھولنے کا اعلان
انٹر سائنس کی طالبہ ماہ نور تو اسے سیدھا سیدھا میرٹ کا قتل قرار دیتی ہیں جبکہ صبور، جو میٹرک کے طالب علم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سارے سال کی محنت کو وزیرِ تعلیم نے منٹوں میں ہی ضائع کردیا۔ اب نہ تو پڑھائی میں دل لگتا ہے، نہ کتابوں میں۔
وہ افراد جو اس فیصلے کے خلاف نظر آتے ہیں ان کے خیال میں بغیر کسی جانچ و پرکھ کے میٹرک، انٹر اور کالج کی سطح پر طلبا کو پروموٹ کرنے سے پڑھنے لکھنے والے بچوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جبکہ سارا سال ڈنڈے بجانے والوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔
ایک مقامی اسکول میں اے لیول کی استاد قرت العین کا کہنا تھا کہ یہ عمل مڈل کلاسوں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس سے آگے سینئر جماعتوں میں کسی نہ کسی طور امتحانات اور جانچ کا عمل ناگزیر ہے، ورنہ طلبا کو آگے جاکر کافی مشکل در پیش آئیں گی۔
دوسری جانب ایجوکیشنل ریسورس ڈیولپمنٹ سینٹر کے سربراہ اور ماہرِ تعلیم سلمان آصف صدیقی کی رائے میں میٹرک، انٹر، کیمبرج سمیت موجودہ تعلیمی اور امتحانی نظام ناقص ہے، اور کورونا سے متاثرہ دنیا میں تو یہ قطعی طور پر غیر فعال ہوگیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امتحانات میں کامیابی زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو آٹھویں جماعت تک بچوں کو محض ان کی مجموعی کوشش اور کارکردگی کی بنا پر ترقی دے دینی چاہیے، البتہ سینئر کلاسوں میں طلبا اپنے رجحان اور دلچسپی کے مضامین لے کر اس میں جانچ کے مختلف طریقوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یوں وہ نہ صرف بہتر کارکردگی دکھائیں گے، بلکہ تعلیم اور سیکھنے کا عمل امتحانات کے خوف کے تابع نہیں رہے گا۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس: ’ٹیلی اسکول‘ چینل کیلئے وزارت تعلیم، پی ٹی وی میں معاہدہ
جہاں کورونا اور لاک ڈاؤن کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں، وہیں گھر اور خاندان کی اہمیت، تعلیم و تربیت گاہ کی حیثیت سے اجاگر ہوئی ہیں۔ بقول علی احمد، ’پہلے میں اپنے بچوں کی تعلیم کا ذمہ دار محض اسکول، کالج اور استاد (ٹیوٹر) کو سمجھتا تھا۔ میرا کام محض ان کی فیسیں ادا کرنا تھا۔ تاہم جب بچوں کے ساتھ وقت گزارا تو احساس ہوا کہ ایک دوسرے سے سیکھنے کے لائق بہت کچھ ہے۔ لہٰذا پچھلے 3 ماہ میں بیٹے کو ڈرائیونگ کی تربیت دی، بیٹی کے ساتھ باغبانی اور بیکنگ کی اور آج کل دونوں بچے مجھے آن لائن کورسز لینا اور بینکنگ سکھا رہے ہیں‘۔
4 بچوں کی والدہ انعم انصاری کا کہنا تھا کہ ’کورونا کی آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ زندگی میں صحیح ترجیحات کا تعین کرلیں۔ میں اور میرے شوہر نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کے ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ لاک ڈائون کے باعث جب ماسیاں، مالی، ڈرائیور اور خانساماں وغیرہ کو چھٹی دینی پڑی تو ہم نے مل کر گھر کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی، پودوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانے جیسے تمام ضروری 'لائف اسکلز' نہ صرف خود سیکھے بلکہ ان سے لطف بھی اٹھایا اور میں اب اعتماد سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہم ضرورت پڑنے پر یہ تمام کام بااحسن خوبی انجام دے سکتے ہیں اور خود انحصاری کا یہ احساس بہت خوش کن ہے‘۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ ’تعلیم کا بنیادی مقصد اچھی زندگی گزارنا اور خود کو وقت و حالات کے مطابق بخوبی ڈھالنا ہوتا ہے۔‘
ایسے میں جہاں تعلیمی اور تدریسی عمل کے تعطل سے بظاہر طلبا کا حرج ہوتا نظر آرہا ہے، وہاں غیر روایتی جدید آن لائن کورسز کے زریعے ہر عمر اور طبقے کے طلبا اپنے من پسند ہنر نہ صرف سیکھ سکتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ علم اور مطالعے کے نت نئے راستے نظر آسکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈیجیٹل کلاسوں کے لیے ایپ تیار کرلی گئی ہے، سعید غنی
یہ صحیح ہے کہ انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم دستیابی، کمپیوٹر سے متعلق کم معلومات اور غربت علم کی اس راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں تاہم ضروری ہے کہ وزارتِ تعلیم اس حوالے سے ایک مربوط پروگرام مرتب کرے اور تمام ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، میگزین، کتب اور انٹرنیٹ کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں پھیلے تمام طلبا کو علم و جستجو کے نت نئے مواقع فراہم کیے جائیں۔
بقول سلمان صاحب، کورونا کے بعد کی دنیا میں مروجہ تعلیمی نظام، نصاب اور طریقہ ٔامتحان فعال نہیں ہوسکیں گے۔ لہٰذا روایتی تعلیمی نظام میں وہ تبدیلی جس کا ادراک بھی ہم سب کو تھا مگر سب ہی اس سے آنکھیں چرا رہے تھے اب ہمارے سامنے واحد راستہ ہے جس میں ہمارے مستقبل کی بقا اور معشیت کی ترقی مضمر ہے۔
اس لیے بجائے اس بحث میں وقت ضائع کرنے کے کہ اسکول، کالج اور جامعات کب، کہاں اور کیسے کھلیں گی اور امتحانات کیسے لیے جائیں گے، ضروری ہے کہ اس وقفے میں وزارتِ تعلیم ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرے کہ آئندہ سالوں میں کس طرح متبادل آن لائن اور ابلاغی تعلیم کو ترویج دی جائے گی۔
نصاب کو کچھ اس طرح بنایا جائے جس میں جدید علوم، سائنس اور تحقیق کو عوامی سطح پر عام کیا جائے گا اور طلبا، اساتذہ اور والدین کو اس کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ وقفہ اور موقع غنیمت ہے اس سے فائدہ اٹھائیں، اور سرکاری و نجی تعلیمی ادارے اس راہ میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس hafeezerum144@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔