صحت

کیا ذیابیطس کے مریض پھلوں کے بادشاہ آم سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟

اس پھل میں قدرتی مٹھاس اتنی زیادہ ہے کہ بیشتر افراد پریشان رہتے ہیں کہ کیا یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ تو نہیں۔

پھلوں کے بادشاہ آم کا موسم آچکا ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے پھلوں میں سے ایک ہے، جب یہ سامنے ہوتا ہے تو اس کا ذائقہ ہاتھ کو رکنے نہیں دیتا۔

مگر اس میں قدرتی مٹھاس اتنی زیادہ ہے کہ بیشتر افراد پریشان رہتے ہیں کہ کیا یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ تو نہیں۔

کیا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال موجود ہے ؟ تو جانیں طبی سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے۔

بہت زیادہ غذائی اجزا سے بھرپور پھل

آم میں متعدد اقسام کے وٹامنز اور منرلز موجود ہوتے ہیں جو اسے صحت کے لیے فائدہ مند پھل بناتے ہیں اور بلڈ شوگر کنٹرول کو بھی بہتر بنانا ممکن ہے۔

ایک کپ یا 165 گرام کٹے ہوئے آم میں 99 کیلوریز، 1.4 پروٹین، 0.6 چکنائی، 25 گرام نشاستہ، 22.5 گرام مٹھاس، 2.6 گرام فائبر، وٹامن سی کی روزانہ درکار مقدار کا 67 فیصد حصہ، کاپر کی روزانہ مقدار کا 20 فیصد، فولیٹ کی روزانہ مقدار کا 18 فیصد، وٹامن اے اور ای کی روزانہ درکار مقدار کا 10 فیصد اور پوٹاشیم کی روزانہ درکار مقدار کا 6 فیصد حصہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی متعدد اہم اجزا جیسے میگنیشم، کیلشیئم، فاسفورس، آئرن اور زنک کی بھی کچھ مقدار اس پھل میں موجود ہوتی ہے۔

بلڈ شوگر پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

آم میں 90 فیصد سے زیادہ کیلوریز قدرتی مٹھاس کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح بڑھ سکتی ہے۔

مگر اس پھل میں فائبر اور متعدد اقسام کے اینٹی آکسائیڈنٹس بھی موجود ہیں جو بلڈشوگر کے مجموعی اثرات کو کم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

فائبر سے دوران خون میں مٹھاس کو جذب کرنے کی شرح سست ہوتی ہے، جبکہ اس میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹ مواد بلڈ شوگر کی سطح میں اضافے سے ہونے والے تناؤ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس سے جسم کے لیے نشاستہ کی زیادہ مقدار کو قابو میں کرنے اور بلڈشوگر لیول کو مستحکم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

گلیسمک انڈیکس

گلیسمک انڈیکس (جی آئی) ایک ایسا ٹول ہے جس میں غذائوں کی درجہ بندی بلڈشوگر پر مرتب اثرات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

اس کے صفر سے 100 تک کے اسکیل ہوتے ہیں، صفر کسی قسم کے اثر نہ ہونے کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ 100 خالص مٹھاس کے اثرات کی نمائندگی کرتا ہے۔

کوئی بھی غذا جو اس درجہ بندی میں 55 سے نیچے ہو، اسے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر انتخاب سمجھا جاتا ہے اور آم کا گلیسمک انڈیکس نمبر 51 ہے، جو تیکنیکی طور پر اسے کم جی آئی غذا بناتا ہے۔

مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لوگوں کا غذاؤں کے حوالے سے نفسیاتی ردعمل مختلف ہوسکتا ہے، اگرچہ آم یقیناً ایک صحت بخش انتخاب ہوسکتا ہے مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کتنی مقدار کو غذا کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

آم کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر کیسے بنایا جائے؟

اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں اور آم کو غذا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مختلف طریقوں کو استعمال کرکے بلڈشوگر کی سطح کو بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔

بلڈ شوگر پر اس کے اثرات کو کم از کم رکھنے کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ ایک وقت میں بہت زیادہ آم کھانے سے گریز کیا جائے۔

نشاستہ یا کاربوہائیڈرٹس والی غذائیں بشمول آم سے بلڈ شوگر لیول بڑھنے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ان کو غذا کا حصہ ہی نہ بنایا جائے۔

ایک وقت میں کسی بھی غذا سے 15 گرام کاربوہائیڈریٹس کو نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا اور آدھا کپ یا 82 گرام کٹے ہوئے آم میں 12.5 گرام کاربوہائیڈریٹس ہوتی ہے۔

اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو آغاز میں آدھے کپ یا 82 گرام آم کو کھا کر دیکھیں کہ بلڈ شوگر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے بعد آپ پھل کی مقدار کو بتدریج بڑھا کر دریافت کرسکتے ہیں کہ کتنی مقدار آپ کے لیے بہتر ہے۔

ایک دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ پروٹین کو آم کا حصہ بنایا جائے، فائبر کی طرح پروٹین بھی بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھنے سے روکنے میں مدد دینے والا جز ہے۔

آم میں فائبر تو ہوتا ہے مگر پروٹین کی مقدار کچھ خاص نہیں ہوتی تو آم کے ساتھ کوئی پروٹین والی غٖذا جیسا ایک ابلا ہوا انڈا، پنیر کا ایک ٹکڑا یا مٹھی بھر گریاں کھانا بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھنے میں روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔

بس یہ ذہن میں رکھیں غذا کوئی بھی ہو اعتدال میں رہ کر کھائی جائے تو بہتر ہے اور ذیابیطس کے مریض ہو یا صحت مند افراد، آم کو بہت زیادہ کھانا فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

تو ایک مخصوص مقدار میں کھانا عادت بنائیں جبکہ اس کے ساتھ پروٹین والی کسی غذا کی کچھ مقدار کو شامل کرلینا بلڈ شوگر کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

میٹھے اور ذائقے دار آموں کی پہچان بہت آسان!

کورونا کے باعث پاکستانی آم کی 50 ہزار میٹرک ٹن برآمد کم ہونے کا امکان

کچے آموں کو غذا کا حصہ کیوں بنانا چاہیے؟