پاکستانی باؤلنگ کے وہ یادگار لمحات جب ناممکن کو ممکن بنادیا گیا
کسی بھی ٹیم کے لیے ٹیسٹ میچ جیتنا بلاشبہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ فتح میں اگرچہ بلے بازوں کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن یہ باؤلرز ہی ہوتے ہیں جو 20 وکٹیں حاصل کرکے ٹیم کو جیت سے ہمکنار کرواتے ہیں۔
کئی مواقع پر جب ہمارے بلے باز بڑا اسکور بنانے میں ناکام ہوگئے یا مخالف بلے بازوں نے بہتر کھیل پیش کردیا تو ٹیم کو میچ میں واپسی لانے یا فتح سے ہمکنار کروانے کے لیے اپنے باؤلرز میں سے کسی ایک کے طوفانی اور یادگار باؤلنگ اسپیل کی ضرورت پڑی۔ آج ہم پاکستانی باؤلرز کے ایسے ہی چند اسپیلز کی یاد تازہ کرنے جا رہے ہیں۔
فضل محمود کا یادگار اور تاریخی اسپیل
ہمارے کھلاڑیوں کے لیے کرکٹ کا کھیل تو پرانا تھا لیکن ٹیسٹ کرکٹ نئی تھی۔ یہ 1954ء کی بات ہے جب قومی ٹیم کو دورہ انگلینڈ میں 4 ٹیسٹ میچوں پر مبنی سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ جانا تھا۔ پہلے میچ میں تو مقابلہ خوب ہوا لیکن بارش کی وجہ سے کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔
دوسرے ٹیسٹ میں ایک بڑی ناکامی کے بعد تیسرے میں بھی شکست سامنے تھی کہ بارش نے بچا لیا۔ چوتھے اور آخری ٹیسٹ میں ٹاس پاکستان نے جیتا اور بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو کپتان کاردار اور آخر میں کھیلنے والوں نے درست ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن سب مل کر بھی پہلی اننگ میں اسکور کو 133 سے آگے نہ لے جاسکے۔
ابتدائی خیال تو یہ تھا کہ انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ لائن برتری حاصل کرکے قومی ٹیم کو مشکل میں ڈال دے گی، لیکن فضل محمود نے محمود حسین کے ساتھ مل کر اس اسکور کو کافی ثابت کرنے کی ٹھانی۔ یاد رہے کہ اب تک کھیلی جانے والی پوری سیریز میں فضل محمود کچھ بھی خاص نہیں کرسکے تھے اور پوری سیریز میں وہ 8 وکٹیں ہی لے سکے تھے۔
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ابتدائی 3 ٹیسٹ میچ بارش سے متاثر رہے اور یوں انگلینڈ کے حصے میں ایک ایک اننگ ہی آئی۔ اگرچہ چوتھے ٹیسٹ میں بھی موسم اور حالات بہت اچھے نہیں مگر اس بار اس موسم نے ان دونوں باؤلرز کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں ایک بہترین بیٹنگ لائن 130 رنز پر ہی ڈھیر ہوگئے اور قومی ٹیم کو 3 رنز کی برتری مل گئی۔ اس پہلی اننگ میں فضل محمود نے 6 اور محمود حسین نے 4 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستانی بلے بازوں نے باؤلرز کی کارکردگی سے متاثر ہوکر دوسری اننگ میں انگلینڈ کو بڑا ہدف دینے کا ارادہ کیا۔ وہ تو بھلا ہو وزیر محمد اور 10ویں نمبر پر آنے والے ذوالفقار احمد کا جنہوں نے نویں وکٹ کے لیے 58 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کی اور قومی ٹیم کو 164 رنز تک پہنچا دیا، اگر یہ پارٹنرشپ قائم نہیں ہوتی تو قومی ٹیم شاید 100 کا ہندسہ بھی عبور نہیں کرپاتی۔
اب چونکہ حالات باؤلرز کے لیے سازگار تھے اس لیے یہ امید ہوچلی تھی کہ شاید یہ میچ میں جیت میسر ہوجائے۔ لیکن جب 168 رنز کے تعاقب میں انگلینڈ نے محض 2 وکٹوں کے نقصان پر 109 رنز بنا لیے تو ساری امیدوں پر پانی پھرتا ہوا اور انگلینڈ سیریز میں 0-2 سے کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا، مگر یہاں سے شروع ہوا فضل محمود کا وہ یادگار اسپیل جس نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔
اگلے صرف 34 رنز پر انگلینڈ کی ٹیم اپنی 8 وکٹوں سے محروم ہوگئی اور پاکستان نے یہ میچ 24 رنز سے جیت کر سیریز 1-1 سے برابر کردی۔ گورے چٹے فضل محمود کی نیلی آنکھیں ان کے انگریز بابو ہونے کا فریب دیا کرتی تھیں لیکن انہوں نے انگلینڈ میں اصلی انگریز گیند بازوں سے بہتر سوئنگ اور سیم کا مظاہرہ کیا۔
فضل محمود نے اس میچ میں 60 اوورز کیے اور 99 رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کیں۔ چونکہ اس وقت تک میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے کا رواج نہیں تھا، لیکن اگر یہ رواج ہوتا تو یہ اعزاز صرف فضل محمود کو ہی مل سکتا تھا۔ یہ فاسٹ باؤلنگ کا ایک ایسا یادگار اسپیل تھا جس نے پاکستان کرکٹ کو ایک دھماکے دار انداز میں دنیا کے سامنے متعارف کروایا تھا۔
جب سرفراز نواز نے آسٹریلوی بلے بازوں کو بے بس کیا
آسٹریلیا کا دورہ قومی ٹیم کے لیے کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ 1979ء سیریز کا پہلا ٹیسٹ میلبورن میں کھیلا گیا تھا جہاں ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے والی پاکستانی ٹیم صرف 196 رنز پر ڈھیر ہوگئی لیکن عمران خان، سرفراز نواز اور وسیم راجہ نے اتنی زبردست باؤلنگ کروائی کہ آسٹریلیا کی پوری ٹیم 168 پر آؤٹ ہوگئی۔ اس اننگ میں عمران خان نے 4 وکٹیں لیں جبکہ سرفراز نواز اور وسیم راجہ کے حصے میں 2، 2 وکٹیں آئیں۔
دوسری اننگ میں ماجد خان کی ایک بہترین سنچری کے ساتھ ساتھ دیگر تمام بلے بازوں کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت پاکستان نے ایک اچھا اسکور جوڑا۔ جب ٹیم نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 353 رنز پر اننگ ڈیکلیئر کی تو آسٹریلیا کو میچ جیتنے کے لیے 382 رنز کا ایک بڑا ہدف ملا۔ آسٹریلیا کی طرف سے اوپنر اینڈریو ہلڈچ کی نصف سنچری کے باوجود 128 رنز پر آسٹریلیا کی 3 وکٹیں گرچکی تھیں اور پاکستانی ٹیم فتح کو قریب تر محسوس کرنے لگی تھی۔
لیکن پھر بیٹنگ کے لیے آنے والے کم ہیوجز نے ایلن بارڈر کے ساتھ ایک ایسی شراکت داری قائم کرلی جس نے پاکستان کو میچ سے تقریباً باہر ہی کردیا تھا۔ کپتان مشتاق محمد نے تمام باؤلرز کو آزمایا لیکن یہ پارٹنرشپ نہ ٹوٹ سکی۔
آسٹریلیا کا اسکور 305 ہوچکا تھا اور ابھی اس کی 3 ہی وکٹیں گری تھیں، جبکہ جیت کے لیے محض 77 رنز درکار تھے اور یہی لگ رہا تھا کہ دونوں بلے باز ہدف حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ تاہم سرفراز نواز کے ارادے کچھ اور ہی تھے، کیونکہ بعد میں جو کچھ ہوا اس پر کسی کے کہنے پر یقین کرنا ہرگز آسان نہیں تھا۔
صورتحال یہ ہوئی کہ اسی مقام پر یعنی 305 رنز پر 177 رنز پر مشتمل یہ زبردست شراکت داری اپنے اختتام کو پہنچی۔ قومی ٹیم کو اس وکٹ کی بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اِن فارم کم ہیوجز ابھی وکٹ پر موجود ہیں اس لیے محض 77 رنز بنانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن قومی ٹیم غلط تھی کیونکہ سرفراز احمد نے اب وہ یادگار اسپیل کیا جس کے نتیجے میں آسٹریلیا کی اگلی 6 وکٹیں صرف 5 رنز کا اضافہ کرکے آؤٹ ہوگئی اور یوں قومی ٹیم کو زبردست کامیابی میسر آگئی۔
اب گرنے والی تمام وکٹیں سرفراز نواز کے نام تھیں اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بھی بلے باز کے پاس سرفراز نواز کی سوئنگ کا کوئی جواب موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس اننگ میں 9 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
ٹو ڈبلیوز کا کیوی بلے بازوں پر دھاوا
پاکستان کرکٹ کو وسیم اکرم اور وقار یونس جیسی جوڑی اور ان کی ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوششوں نے کم از کم شروع کے سالوں میں تو ٹیم کو بہت فائدہ پہنچایا۔
وقار یونس کی ٹیم میں آمد کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف اگر وہ وکٹوں کی دوڑ میں آگے رہے تو ویسٹ انڈیز کے خلاف اگلی سیریز میں وسیم اکرم آگے دکھائی دینے لگے۔ 1992ء کے دورہ انگلینڈ میں تو دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے اور سیریز کے اختتام پر دونوں میں صرف ایک وکٹ کا فرق تھا۔ اس مقابلے کا فائدہ پاکستان کو سیریز میں 1-2 کی فتح سے ہوا۔ 1993ء کے آغاز میں قومی ٹیم جب ایک ٹیسٹ کے لیے نیوزی لینڈ پہنچی تب وسیم اکرم اور وقار یونس اپنے عروج پر تھے۔
نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی تو کپتان جاوید میانداد کے علاوہ کوئی بھی وکٹ پر نہیں ٹِک سکا اور پوری ٹیم 216 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ اس اننگ میں کپتان میانداد نے 92 رنز بنائے اور نروس نائنٹیز کا شکار ہوگئے۔
جواب میں نیوزی لینڈ نے مارک گریٹ بیچ کی سنچری کی بدولت پہلی اننگ میں 48 رنز کی برتری حاصل کی تو دوسری اننگ میں انضمام الحق نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور 75 رنز کی اننگ کھیل کر قومی ٹیم کو بڑی مشکل سے بچا لیا۔ اس اننگ کے باوجود بھی قومی ٹیم زیادہ اسکور نہیں کرسکی اور پوری ٹیم 174 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
یوں نیوزی لینڈ کو صرف 127 رنز کا ہدف ملا۔ اب پہلی اننگ میں اکیلے مارک گریٹ بیچ نے ہی 133 رنز جوڑ لیے تھے، اور پھر چونکہ کیوی ٹیم اپنی ہی سرزمین پر کھیل رہی تھی اس لیے اس کی جیت واضح نظر آرہی تھی۔
لیکن اننگ کے آغاز سے ہی وسیم اور وقار جس انداز میں باؤلنگ کررہے تھے اسے دیکھ کر لگا کہ میچ کچھ دلچسپ ہوسکتا ہے۔ وسیم اکرم زبردست فارم میں دکھائی دے رہے تھے اور نیوزی لینڈ کو جلد سے جلد پویلین واپس لوٹانے کی بھرپور کوشش میں تھے۔ تیسرے دن کے اختتام تک نیوزی لینڈ کا اسکور 39 تھا اور گرنے والی تینوں وکٹیں وسیم اکرم کے نام تھیں۔
چوتھے دن اینڈریو جونز اور ایڈم پرورے بغیر مزید نقصان کے اسکور کو 65 تک لے گئے تو نیوزی لینڈ کی امیدیں مزید پختہ ہونے لگیں۔ میزبان ٹیم کو اب جیتنے کے لیے محض 62 رنز درکار تھے اور ابھی راڈ لیتھم، کین ردرفورڈ اور کرس ہیرس پویلین میں موجود تھے، لیکن جونہی وقار یونس نے اینڈریو جونز کی وکٹ حاصل کی تو بقیہ بلے باز خزاں کے پتوں کی طرح بکھرنے لگے اور پوری ٹیم 93 رنز بناکر پویلین لوٹ گئی، یوں قومی ٹیم اس میچ میں 33 رنز سے فتحیاب ہوئی۔
وسیم اکرم اور وقار یونس دونوں نے اس اننگ میں 5، 5 وکٹیں حاصل کیں۔ وقار یونس نے میچ میں 9 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن جیوری کے خیال میں وسیم اکرم کی حاصل کردہ 8 وکٹیں زیادہ اہم تھیں یوں انہیں مین آف دی میچ کے خطاب سے نوازا گیا۔
جب ثقلین مشتاق نے سچن کو ٹریپ کیا
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک روزہ کرکٹ کا میلہ تو سجتا رہتا تھا لیکن 9 سال بعد دونوں ٹیموں کے درمیان کوئی ٹیسٹ میچ ہورہا تھا۔ 1999ء میں چنئی کے میدان پر کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستانی کپتان وسیم اکرم نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو یہ واضح ہوگیا کہ پچ میں باؤلرز کے لیے کافی مدد موجود ہے۔
قومی ٹیم ابتدا میں بہت مشکل میں دکھائی دی اور 91 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ لیکن پھر محمد یوسف اور معین خان کی نصف سنچریوں کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم کے 38 رنز نے قومی ٹیم کو سہارا دیا اور یوں انیل کمبلے کی 6 وکٹوں کے باوجود پاکستان کو 238 تک پہنچا دیا۔
بھارت کی پہلی اننگ کا آغاز پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر تھا لیکن 67 رنز پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد وکٹیں گرنے کا جیسے ایک سلسلہ ہی شروع ہوگیا اور بھارت کو صرف 16 رنز کی برتری ہی حاصل ہوسکی۔ ثقلین مشتاق نے اس اننگ میں 5 وکٹیں حاصل کی جبکہ شاہد آفریدی نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
دوسری اننگ میں اگرچہ سعید انور اور اعجاز احمد تو جلدی وکٹیں گنوا بیٹھے لیکن شاہد آفریدی نے انضمام الحق اور سلیم ملک کے ساتھ بہترین شراکت داری قائم کی اور اسکور کو 4 وکٹوں کے نقصان پر 275 رنز تک پہنچا دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب لگ رہا تھا کہ پاکستان ایک بہت بڑی لیڈ حاصل کر لے گا، تاہم جیسے ہی سنیل جوشی نے سلیم ملک کی وکٹ حاصل کی تو وینکٹش پرساد نے باقی ٹیم کو 11 رنز کے اندر پویلین لوٹا کر پاکستان کی برتری کو 270 تک محدود کردیا۔ اس اننگ کی خاص بات شاہد آفریدی کی زبردست اننگ تھی جنہوں نے 3 چھکوں اور 21 چوکوں کی مدد سے شاندار 141 رنز بنائے۔
جب بھارتی ٹیم ہدف کے حصول کے لیے میدان میں اتری تو وقار یونس اور ثقلین مشتاق نے 2، 2 وکٹیں گرا کر قومی ٹیم کو میچ میں برتری دلا دی۔ بھارت کو مزید 189 رنز درکار تھے اور سچن ٹنڈولکر کا ساتھ دینے کے لیے صرف وکٹ کیپر مونگیا اور ٹیل اینڈرز ہی بچے تھے۔
اس موقعے پر مونگیا نے بہادری کے ساتھ ٹنڈولکر کا ساتھ دیا اور وسیم اکرم کی تیز باؤلنگ کے ساتھ ثقلین مشتاق، شاہد آفریدی اور ندیم خان کی اسپن باؤلنگ کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
اس دوران نہ جانے کیوں کپتان وسیم اکرم نے ابتدا میں ہی 2 وکٹیں لینے والے وقار یونس کو بہت کم استعمال کیا۔ یہ شراکت یونہی چلتی رہی اور جہاں ایک طرف بھارت کے 200 رنز مکمل ہوئے، تو دوسری طرف ٹنڈولکر کی سنچری اور مونگیا کی نصف سنچری بھی مکمل ہوگئی۔
لیکن پھر 218 کے اسکور پر مونگیا نے وہ غلطی کی جس کا پاکستانی ٹیم کو شدت سے انتظار تھا۔ انہوں نے ایک غلط شاٹ کھیلا اور وسیم اکرم کی گیند پر وقار یونس کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اگرچہ بعد میں آنے والے سنیل جوشی نے بھی ٹنڈولکر کا بھرپور ساتھ دیا اور اگلی 34 گیندوں پر 36 رنز بھی بن گئے تھے اور لگ رہا تھا کہ جیسے ایک ون ڈے میچ چل رہا ہے۔
دوسری طرف ثقلین مشتاق اپنا پورا زور لگا رہے تھے مگر سچن جس بہترین فارم میں بیٹنگ کررہے تھے اس وقت ان کو آؤٹ کرنا بہت ہی مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن اس مشکل کام کو ثقلین احمد نے اپنے 'دوسرے' کے ذریعے آسان بنا لیا۔ ٹنڈولکر اس گیند کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکے اور بظاہر اندر آتی گیند جب باہر نکلی تو ٹنڈولکر کے بیٹ کا باہری کنارہ نکلا اور یوں گیند ہوا میں اچھل گئی۔
حالانکہ یہ وہ موقع تھا کہ اگر وہ مزید 2 اوور تحمل سے کھیلتے رہتے تو بھارت یہ میچ ضرور جیت جاتا، لیکن انہوں نے غلط وقت پر کچھ جلدی دکھانے کی کوشش کی اور انہیں اس کا نقصان بھی ہوا۔
وسیم اکرم کے ایک اچھے کیچ کے ساتھ ہی قومی ٹیم کے حوصلے بحال ہوئے اور قومی ٹیم میچ میں واپس آگئی۔ اگرچہ صورتحال اب بھی آسان بالکل نہیں تھی کیونکہ میزبان ٹیم کو میچ جیتنے کے لیے صرف 18 رنز درکار تھے جبکہ اس کی 4 وکٹیں ابھی بھی باقی تھیں۔
لیکن قومی ٹیم نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل محنت ہوتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سنیل جوشی نے ثقلین کی گیند پر کیچ تھما دیا اور پھر ثقلین کے اگلے ہی اوور میں سری ناتھ نے گیند کو بلے سے روکا لیکن وہ رینگتے ہوئے وکٹوں سے جا لگی، یوں پاکستان نے ایک تاریخی فتح حاصل کرلی۔
ثقلین مشتاق نے اپنی زندگی کا ایک یادگار اسپیل کیا تھا جس نے اس جیت میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا، لیکن اس کے باوجود مین آف دی میچ کا اعزاز سچن ٹنڈولکر کو دے دیا گیا، مگر ثقلین کے لیے شاید پاکستان کی فتح زیادہ بڑی خوشی تھی۔
وہ یادگار اسپیل جس کی بدولت شعیب اختر نے ناممکن کو ممکن بنادیا
شعیب اختر ہمیشہ سے ہی ایک ایسے باؤلر رہے جو کچھ ہی گیندوں میں میچ کا پانسہ پلٹنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف شارجہ ون ڈے اور بھارت کے خلاف کلکتہ ٹیسٹ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو کافی حد تک شعیب اختر کی فیورٹ اپوزیشن کہا جا سکتا ہے۔
1999ء کے ورلڈکپ کا میچ ہو یا 2002ء میں لاہور ٹیسٹ، شعیب اختر نے نیوزی لینڈ کی بیٹنگ کو ایسے تباہ کیا کہ سر اٹھانے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ ویلنگٹن میں 2003ء میں کیا جانے والا یہ اسپیل اس لحاظ سے مختلف کہا جاسکتا ہے کہ اس ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم دیوار سے لگ چکی تھی۔ پہلی اننگ میں نیوزی لینڈ 170 رنز کی برتری حاصل کرچکا تھا۔ اس اننگ میں بھی شعیب اختر نے اگرچہ 5 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن جیکب اورم نے 8ویں نمبر پر آکر 97 رنز کی زبردست اننگ کھیل کر نیوزی لینڈ کو 366 تک پہنچا دیا تھا۔
جواب میں محمد یوسف کی کارکردگی کے سوا کسی بھی پاکستانی بلے باز کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی تھی۔ یوسف نے اس اننگ میں 60 رنز بنائے اور یوں پوری ٹیم محض 196 رنز ہی بناسکی۔
نیوزی لینڈ نے 170 رنز کے ساتھ جب دوسری اننگ کا آغاز کیا تو اس کی پوزیشن بہت مضبوط تھی، بلکہ اس موقع پر تو اس کی جیت یقینی ہی لگ رہی تھی۔
شعیب اختر نے اگرچہ اوپنر لو ونسنٹ کو شروع میں ہی آؤٹ کردیا تھا مگر اس کے باوجود تیسرے دن کے اختتام تک نیوزی لیند نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 73 رنز بنالیے تھے اور مجموعی طور پر 243 رنز کی برتری بھی حاصل کرلی تھی۔
لیکن چوتھا دن تو جیسے نیوزی لینڈ کے لیے بہت ساری بُری خبریں لے کر طلوع ہوا تھا کیونکہ اگلے 30 رنز پر نیوزی لینڈ کے بقیہ 8 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے اور یوں پوری ٹیم 103 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ اس اننگ کی خاص بات شعیب اختر کی تباہ کن باؤلنگ تھی جنہوں نے محض 30 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔
اب قومی ٹیم کو 274 رنز کا ہدف ملا تھا۔ پہلی اننگ کی کارکردگی کو دیکھ کر تو اس کا حصول بھی مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن اس اننگ میں ایسا لگا جیسے پاکستانی بلے بازوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ شعیب اختر کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ یاسر حمید، محمد یوسف اور انضمام الحق کی نصف سنچریوں کی مدد سے قومی ٹیم نے ایک مشکل ہدف آسانی سے حاصل کرلیا۔
شعیب اختر نے اس میچ میں 11 وکٹیں حاصل کیں، اور اس کارکردگی کی وجہ سے انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا
پاکستان کرکٹ میں ایسے یادگار اسپیلز کی دیگر متعدد مثالیں بھی موجود ہیں مگر مذکورہ بالا اسپیلز اس لحاظ سے بہتر لگے کیونکہ ان کی بدولت وہ میچ جیتے گئے جن میں ہار گلے کو آن پہنچی تھی۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔