راجستھان میں غیر قانونی شکار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ایک صحرائی ہرن چنکارا کے کئی کیس بھی شامل ہیں، جو پہلے ایک وسیع علاقے میں پائے جاتے تھے مگر اب ان کی زیادہ تعداد صرف راجستھان میں ہی پائی جاتی ہے۔
تحفظ پسندوں کے مطابق یہ صرف ابتدائی معلومات ہی ہیں۔ صحرائی ماحولیات کا مطالعہ کرنے والے اور معاشرتی تحفظ پر کام کرنے والے سمت ڈوکیہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے اندازے کے مطابق مغربی راجستھان میں کم سے کم 55 شکار ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ شکار کیے جانے والے جانوروں میں چنکارا، کالے ہرن، خار دم چھپکلی، صحرائی خرگوش، مور، مانیٹر چھپکلی اور سرمئی فرانکولن شامل ہیں۔
دوسری طرف کرناٹک کے بانڈی پور ٹائیگر ریزرو میں ایک شکاری گروہ دریافت ہوا، گروہ کے 9 افراد کو 50 کلوگرام چیتل ہرن کے گوشت سمیت پکڑا گیا۔ یہ غیر قانونی شکار کے واقعات میں سے ایک تھا۔ کچھ ملزمان محکمہ جنگلات میں عارضی ملازمت کرتے رہے تھے۔
بنگلہ دیش میں غیر قانونی شکار کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا
خطے کے باقی حصوں کے برعکس بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار کو سخت کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ وائلڈ لائف اینڈ نیچر کنزرویشن سرکل کے محافظ جنگلات، مہر کمار ڈو نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باوجود ہمارا وائلڈ لائف کرائم کنٹرول یونٹ (ڈبلیو سی سی یو) انتھک محنت کر رہا ہے۔ چونکہ نقل و حمل ممنوع ہے، لہٰذا اب جنگلات میں غیر قانونی شکار پر قابو پانا ممکن ہوگیا ہے'۔
جنگلات کے چیف کنزرویٹر عامر حسین چوہدری نے کہا، 'بنگلہ دیش میں مختلف جنگلی جانوروں کی منڈی تو موجود نہیں ہے البتہ اسے ایک راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن وبائی امراض کے دوران بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کی غیر قانونی شکار میں کمی آرہی ہے'۔
ڈبلیو سی سی یو کے مطابق 2013ء اور 2019ء کے بیچ جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے 438 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں، صرف 2019ء میں ہی 107 واقعات پیش آئے۔
لیکن دیگر کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تجارت اب بھی جاری ہے۔ کری ایٹو کنزرویشن الائنس کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر شہریار قیصر رحمٰن نے کہا ہے کہ ہرن، پینگولین، چھپلی نما کچھوے اور دیسی پرندے جیسی کچھ مقامی نسلوں کا اب بھی غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اب چونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کورونا وائرس کے مسئلے میں مصروف ہیں اس لیے اسمگلروں کو غیر قانونی زمینی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت بڑھانے کا موقع مل گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں کئی برادریاں اب اپنی روزی روٹی کے لیے جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار یا انہیں ہلاک کرنے میں ملوث ہوگئی ہیں۔ یہ تشویشناک صورتحال ہے'۔
اس تحریر کے لیے پاکستان میں عدیل سعید، ہندوستان میں نیہا سنہا، نیپال میں اے آر جوشی اور بنگلہ دیش میں نازمون ناہر شیشیر نے رپورٹنگ کی خدمات انجام دی۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر تھرڈ پول پر شائع ہوا جسے بااجازت یہاں شائع کیا گیا۔