پاکستان

شہزاد اکبر نے جسٹس عیسیٰ یا ان کے اہلخانہ کی نگرانی کی سختی سے تردید کردی

عدالت عظمیٰ میں اثاثہ جات بحالی یونٹ کے سربراہ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست پر جواب الجواب جمع کرادیا۔

اسلام آباد: اثاثہ جات بحالی یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین مرزا شہزاد اکبر نے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنے سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے اہل خانہ کے سلسلے میں نگرانی یا خفیہ نگرانی کی سختی سے تردید کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر جواب الجواب جمع کراتے ہوئے اے آر یو سربراہ نے کہا کہ مبینہ طور پر غیر منقولہ جائیدادوں کے مالک اپنی برطانیہ کی جائیدادوں سے متعلق تفصیلات طلب کرنے والے کسی کے خلاف کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک حالیہ درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اے آر یو سربراہ اسناد کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ کے جج اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کی ہیں تاہم وہ اپنے اور اپنے اہلخانہ کے بارے میں اسی طرح کی معلومات نہیں فراہم کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں شہزاد اکبر نے وضاحت دی کہ اے آر یو کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں تنخواہ یا کوئی اور مراعات نہیں ملے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ برطانیہ میں غیر منقولہ جائیداد برطانیہ لینڈ رجسٹری میں لازمی طور پر رجسٹر کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ایک کھلا ذریعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح اس سے کوئی راز نہیں منسلک تھا اور نہ ہی برطانیہ میں کسی غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات کے بارے میں کوئی مناسب توقع یا رازداری تھی۔

انہوں نے ککہا کہ برطانیہ میں کسی بھی غیر منقولہ جائیداد میں رہنے والوں کی تفصیلات اوپن سورس ویب سائٹ جیسے 192 ڈاٹ کام اور یوکے فون بک ڈاٹ کام کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: حکومتی وکیل نے 'گمشدہ' دستاویز عدالت میں پیش کردی

اے آر یو کے چیئرمین نے مرکزی درخواست میں اٹھائے گئے تمام اعتراضات کی بھی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار جج اے آر یو کی تشکیل یا کام پر کوئی حملہ نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے چیئرمین کی تقرری یا اس پر کام کرنے پر کوئی حملہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے اے آر یو کے چیئر مین کے کام اور فرائض کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری قانون کے ماہر کی حیثیت سے نوٹ نمبر 1 (29/2019/19 مارچ ، 2019 کی اے آر یو) کے تحت اس کا کام وائٹ کالر جرائم کے کیسز تیار کرنا اس پر تحقیق کرنا، قانونی مشاورت فراہم کرنا، متعلقہ ایجنسیوں کو غیر ملکی اثاثے یا پاکستانی شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کے شواہد حاصل کرنا ہے۔

جواب الجواب میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق ازخود سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ذریعہ اسی طرح کی ٹاسک فورس / کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔

عدالت عظمی کو موجودہ حکومت کے بیرون ملک موجود غیر قانونی اثاثوں کو واپس لانے کے اقدامات کے حوالے سے بھی بتایا گیا۔

جواب الجواب میں کہا گیا کہ اے آر یو کو مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے کابینہ نے 19 نومبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے مختلف عہدے تشکیل دیے تھے جن میں ایم پی 1 اسکیل کے پارلیمنٹ میں بین الاقوامی فوجداری قانون کے ماہر بھی تھے۔

اور اے آر یو میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے آسامیوں کی تشہیر کی گئی تھی اور اسی مقصد کے لیے کابینہ سیکریٹریٹ نے 22 نومبر 2018 کو ایک خط جاری کیا تھا جس کے بعد خالی آسامیوں کی تشہیر کی گئی تھی۔

شہزاد اکبر کو شارٹ لسٹنگ اور انٹرویو کے عمل کے بعد ایم پی-I اسکیل میں بین الاقوامی فوجداری قانون کے ماہر کے طور پر مقرر کرنے کی تجویز کی گئی تھی۔

شہزاد اکبر کو بالآخر 18 جنوری 2019 کو اے آر یو میں بین الاقوامی فوجداری قانون کے ماہر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا جو کابینہ ڈویژن کے تحت کام کرتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں حکومت کو کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا حکم

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔

جب تک لوگ کورونا کو سنجیدہ نہیں لیں گے، پاکستان نہیں آؤں گی، بشریٰ انصاری

کورونا وائرس: پاکستان میں ایک روز میں ریکارڈ 4700 سے زائد کیسز، مزید 77 اموات

حکومت کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق سروے کا فیصلہ