میلان کے سان ریفایلی ہاسپٹل کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا 'حقیقت تو یہ ہے کہ طبی لحاظ سے یہ وائرس اب اٹلی میں موجود نہیں'۔
ان کا کہنا تھا 'گزشتہ 10 دن کے دوران سواب ٹیسٹوں میں جو وائرل لوڈ دیکھا گیا وہ ایک یا 2 ماہ قبل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے'۔
مگر عالمی ادارہ صحت سے تعلق رکھنے والی وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکوف سمیت متعدد طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو کے بیان کی حمایت سائنسی شواہد نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیٹا سے ثابت نہیں ہوتا کہ نیا کورونا وائرس نمایاں حد تک بدل چکا ہے اور نہ ہی اس کے پھیلاؤ اور شدت میں کسی قسم کی تبدیلیاں آئی ہیں۔
ماریہ وان کرکوف نے کہا کہ جہاں تک وائرس کے پھیلاؤ کی بات ہے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جبکہ اس کی شدت میں بھی کوئی تدیلی نہیں آئی۔
وائرسز میں تبدیلیاں اور انہیں اپنانا غیرمعمولی نہیں مگر اس نئی بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنسدان کس طرح نیا وائرس کی مانیٹرنگ اور ٹریکنگ کررہے ہیں۔
لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسین کے وبائی امراض کے پروفیسر مارٹن ہبرڈ نے اس حوالے سے کہا کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والے سارس کوو 2 وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں پر ہونے والی طبی تحقیقی رپورٹس سے اس خیال کو تقویت نہیں ملتی کہ وہ اب کم جان لیوا ہوگیا ہے یا کسی قسم کی کمزوری کا شکار ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 33 ہزار وائرس جینومز کے ڈیٹا میں اس وقت ایسے شواہد نہیں ملے جن سے معلوم ہو کہ وائرس کی شدت میں کوئی نمایاں فرق آچکا ہے۔
گلاسگو یونیورسٹی کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کے اآسکر میکلین نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ وائرس میں کمزوری آنے کی بات کی کسی بھی سائنسی مطالعے سے ثابت نہیں ہوتی۔
اطالوی ڈاکٹر البرٹو نے کہا کہ ان کا بیان ایک تحقیق کی بنیاد پر تھا جو ان کے ساتھی سائنسدانوں نے کی تھی اور اسے اگلے ہفتے شائع کیا جارہا ہے۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وائرس بدل گیا ہے، ہمار کہنا تھا کہ وائرس اور اس کے میزبان کے درمیان تعلق تبدیل ہوا ہے۔
سان ریفایلی کے مائیکروبائیولوجی و وائرلوجی لیبارٹری کے ڈائریکٹر ماسیمو کلیمنٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں میلان کے ہسپتال میں مارچ میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں سے لیے جانے والے وائرس کے نمونوں کا موازنہ مئی میں زیرعلاج مریضوں کے نمونوں سے کیا گیا۔
ڈاکٹر البرٹو کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج بالکل واضح ہیں، مارچ اور مئی کے مریضوں کے وائرل لوڈ میںن بہت زیادہ نمایاں فرق دیکھنے میں آیا۔