جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل: ملزم طارق محمود کی درخواست ضمانت منظور
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس میں ملزم طارق محمود کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست ضمانت کی سماعت کی جہاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے تفتیشی افسر بھی پیش ہوئے۔
جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر سے ویڈیو اسکینڈل کے کرداروں کے حوالے سے استفسار کیا کہ کس نے بلیک میلنگ کی اور کس نے کس کو بلیک میل کیا۔
مزید پڑھیں:’جج ویڈیو کیس میں ارشد ملک کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘
عدالت نے پوچھا کہ کیا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ طارق محمود نے جج کو بلیک میل کیا جس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ارشد ملک کے ملازمین نے بیان دیا کہ طارق محمود نے جج کو ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا۔
ایف آئی اے کے مؤقف پر عدالت نے سوال کیا کہ ارشد ملک نے اپنے بیان میں کیا کہا کہ وہ بلیک میل کیسے ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا جج بلیک میل ہو گیا اور طارق محمود کو کتنے عرصے سے جیل میں رکھا ہوا ہے، جس پر ایف آئی کے افسر نے کہا کہ طارق محمود 10 ماہ سے اڈیالہ جیل میں ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کے افسر سے کہا کہ لگ رہا ہے کہ آپ کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں ہیں اور کیا آپ نے ویڈیو دیکھی ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ویڈیو دیکھی ہے جس میں جج غیر اخلاقی حالت میں ہے اور ان کی ویڈیو بن رہی ہے۔
چیف جسٹس اطرمن اللہ نے کہا کہ اس میں جج بھی قصور وار ہے اور اسی طرح ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ اور جج کا بیان ہے کہ ویڈیو درست ہے لیکن میاں طارق کے خلاف کیا ثبوت ہیں۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ملزم نے جج کو بلیک میل کیا تو ثبوت کہاں ہیں، آپ کی رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں، آپ نے ٹرائل میں ثبوت پیش کرنے ہیں وہی ثبوت عدالت کو دکھائیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے کہا کہ اس حوالے سے گواہان کے بیانات موجود ہیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ آپ کے پاس بیانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ نے ملزم کو سزا دلوانی ہے لیکن کس بنیاد پر سزا دلوائیں گے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تفتیشی افسر کا مؤقف سننے اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست ضمانت کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم طارق محمود کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی اور ایک لاکھ مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔
جج ویڈیو لیک کیس
یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔
تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل: سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ میں او ایس ڈی بنا دیا گیا
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ناصر بٹ نے 5 اکتوبر کو احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشد ملک کے خلاف شواہد جمع کروائے تھے۔
ناصر بٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات میں ان کے اور جج ارشد ملک کے درمیان گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں، بات چیت کی ویڈیو کم آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ، درخواست گزار کا بیان حلفی، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی فرانزک رپورٹس اور دونوں افراد کے درمیان بات چیت کی اصل آڈیو اور ویڈیو-کم-آڈیو ریکارڈنگز کی کاپیوں پر مشتمل یو ایس بی شامل ہیں۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مذکورہ دستاویزات کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کے ریکارڈ میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ویڈیو میں موجود جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کو دباؤ کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کیا تھا۔