پاکستان

طیارہ حادثے کی تحقیقات: ماہرین اپنی ٹیموں کے لیے ایک دوسرے سے الجھ پڑے

ملک میں ایوی ایشن نظام کے دو دھڑے سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک پائلٹ اور دوسرے ایئر ٹریفک کنٹرولرز ہیں۔

22 مئی کو کراچی میں ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے کے حادثے میں انکوائری ٹیم کی جانب سے مضبوط شواہد کے سامنے آنے سے قبل سسٹم کے اندر موجود مختلف گروہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہرین کے ساتھ ڈان کی گفتگو میں اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ حقائق کی تلاش کتنی پیچیدہ ثابت ہوسکتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحقیقات کو عالمی سطح پر قابل قبول قرار دینا کتنا مشکل ہوسکتا ہے۔

ملک میں ایوی ایشن نظام کے دو دھڑے سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک وہ لوگ جن کا کام طیاروں کو اڑانا ہے اور ایک وہ جن کا کام طیارے کی رہنمائی اور اس کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے فرائض ادا کرنے والے شامل ہیں۔

تفتیش کاروں کی اصل توجہ اب تک 22 مئی کو کراچی میں گرنے والے پی کے-8303 پرواز کی پہلی ناکام لینڈنگ اور گو اراؤنڈ (دوبارہ اتارنے) پر رہی ہے اور انہوں نے ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے متعلقہ کنٹرولرز جن کو تحقیقات مکمل ہونے تک کام کرنے سے روک دیا گیا ہے، کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: تحقیقاتی ٹیم میں ماہرینِ طب، نفسیات کی شمولیت کا فیصلہ

کچھ ریٹائرڈ اور خدمت انجام دینے والے پائلٹوں نے پائلٹ اور ہوائی ٹریفک کنٹرولر کے مابین مواصلات کی روشنی میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے کردار کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے رن وے کے معائنے کی ویڈیو لیک ہونے کے بارے میں سوالات پوچھے ہیں جس نے 'پائلٹ کی ناکامی' کے نظریے کو تقویت دی تھی اور یہ بھی کہا کہ ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) نے پائلٹ کو متبادل آپشن، لینڈنگ کی ناکام کوشش کے بعد ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ویکٹر منصوبہ، کیوں نہیں دیا۔

تفتیش کے بارے میں معلومات رکھنے والے حکام نے ڈان کو بتایا کہ تفتیش وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ایئر کموڈور عثمان غنی کی سربراہی میں چار رکنی ٹیم، ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) نے متعلقہ ہوائی ٹریفک کنٹرولرز اور رن وے انسپیکشن ٹیم کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حادثے کی ذمہ داری معلوم کرنے تک زیربحث کنٹرولرز کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: ورثا کو فی کس 50 لاکھ روپے ملیں گے، ترجمان پی آئی اے

ذرائع نے بتایا کہ ’اب تک تفتیش کاروں نے جو شواہد اکٹھے کیے ہیں ان میں رن وے کی تصاویر، ہوائی جہاز کے پرزے، کنٹرولرز اور پائلٹ کے مابین رابطے کا ریکارڈ، ریڈار کے ذریعے ریکارڈنگ اور دیگر متعلقہ مواد شامل ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ‘مقامی تفتیش کاروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہوابازی کے طریقہ کار میں ہونے والی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کریں اور اس کی ذمہ داری طے کریں اور اس سے بچنے کے لیے تجاویز پیش کریں‘۔

تفتیش کاروں نے لاپتہ کاک پٹ وائس ریکارڈر (سی وی آر) اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (ایف ڈی آر) تلاش کرلیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی تباہ شدہ ایئربس 320 کے بنانے والوں کی تحقیقاتی ٹیم بھی حادثے پر اپنی تحقیقات کر رہی ہے۔

ایک سینئر ایئر ٹریفک کنٹرولر کا حوالہ دیتے ہوئے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ طیارے کو طریقہ کار کے مطابق ہر وقت ‘اپروچ کنٹرولرز’ کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پائلٹ نے پرواز کے دوران کسی بھی وقت ٹاور فریکوئنسی پر کال نہیں کی تھی اور وہ کریش ہونے تک اے ٹی سی سے رابطے میں تھا‘۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثے کے بعد اٹھنے والے سوالات اور ان کے جوابات

انہوں نے کہا کہ ’قوانین کے تحت ضروری ہے کہ مقامی حکام کو پائلٹس کی لاشوں کی بائی اوپسی کریں تاہم یہ نہیں کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پہلے آئیے بنیادی کرداروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، پائلٹ کاک پٹ میں ہے اور اس میں موجود تمام سوئچز اس کے زیر کنٹرول ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ‘دوسری جانب کنٹرولر, پائلٹ کے مطابق اس کے راستے پر طیارے کی رہنمائی کرتا ہے، کنٹرولر کی بنیادی ذمہ داری دوران پرواز ٹکراؤ سے بچانا ہے، جب پرواز منزل کے قریب پہنچ جاتی ہے تو راڈار کنٹرولر پائلٹ کو راہنما (ویکٹر) فراہم کرتا ہے تاکہ وہ رن وے کے مطابق 10 میل کے فاصلے پر اسے پوزیشن میں لے سکے جہاں سے پائلٹ ہوائی اڈے پر نصب آئی ایل ایس (انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم) سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور لینڈنگ کرتا ہے‘۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘اسی طرح گیئر (پہیے) کو نیچے کرنا اس کی بنیادی ضرورت ہے جسے ٹچ ڈاؤن سے 10 میل کی دوری پر کرلینا چاہیے، جب لینڈنگ / ٹیک آف عمل میں ہو تو اے ٹی سی کا کام دوسرے طیارے/گاڑی وغیرہ سے رن وے کو کلیئر رکھنا ہے، اگر پائلٹ کسی ہنگامی صورتحال کا اعلان کرتا ہے جیسے آگ، انجن یا دیگر مسئلے کی تو اے ٹی سی اپنی لینڈنگ کو ترجیحی طور پر ایڈجسٹ کرتا ہے اور طیارے کے محفوظ طور پر اترنے تک دیگر طیاروں کی حفاظت کرتا ہے۔

جہاں حادثے کی تحقیقات جاری ہیں وہیں ایک نقطہ نظر یہ بھی سامنے آیا کہ ایئربس 320 کے کپتان نے پہلی بار لینڈ کرنے کی کوشش کے وقت کسی بھی ہنگامی صورتحال کی اطلاع نہیں دی تھی، اسے 3 ہزار 500 فٹ پر بتایا گیا تھا کہ وہ قریب آنے پر تھوڑا زیادہ اونچائی پر ہے لہذا وہ 2 ہزار فٹ یا اس کے قریب تک نیچے آسکتا ہے تاہم پائلٹ نے کہا کہ وہ آرام دہ اور پرسکون ہے اور سیدھے آگے بڑھ رہے ہیں۔

عہدیدار، جس سے ڈان نے بات کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ایک بار جب پائلٹ کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ مناسب لینڈنگ نہیں کرسکتا ہے تو وہ رن وے سے رگڑ کھانے کے بعد دوبارہ اونچائی کی طرف چلا گیا تھا اور اس عمل میں طیارے کے انجنز کو نقصان پہنچا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: طیارہ حادثے کے مقام سے 3 کروڑ روپے سے زائد کی کرنسی برآمد

ان کا کہنا تھا کہ اے ٹی سی نے اسے واپس آنے اور کسی بھی رن وے پر اترنے کی منظوری دی تھی اور اس کے لیے تمام ٹریفک روک دی تھی تاہم بدقسمت جہاز نے پہلے ہی اپنے انجنز کو نقصان پہنچادیا تھا اور یہ رن وے سے ایک میل دور گر کر تباہ ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں کنٹرول ٹاور سے لینڈنگ کلیئرنس پہلے ہی حاصل کرلی جاتی ہے، ’ہوائی جہاز کو یا تو شارٹ فائنل میں یا لینڈنگ کے بعد ٹاور فریکوئنسی پر جانے کے لیے کہا جاتا ہے، عام طور پر ٹاور کنٹرولر کے ساتھ ریڈار فریکوئنسی بھی دستیاب ہوتی ہے، اس خاص اس کیس میں جیسا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طیارہ بہت قریب تھا لہذا طیارے کی اونچائی کی نگرانی کے لیے شاید اسے ریڈار فریکوئنسی پر رکھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی کے 8303 کے پائلٹ کو پہلی مرتبہ ہی میں لینڈ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، ’شارٹ ویکٹر صرف ایمرجنسی میں پائلٹ کی درخواست پر دیا جاتا ہے یا پھر کنٹرولرز کو ترتیب دینے کے لیے اسے ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے، اس سارے عمل میں پائلٹ نے نہ تو کسی ایمرجنسی کی اطلاع دی اور نہ ہی کسی چھوٹے ویکٹر کی جس کا مطلب تھا کہ کاک پٹ نارمل دکھائی دے رہا تھا۔

ایک اور عہدیدار نے سوال کیا کہ طیارے کا انجن جب رن وے سے ٹکرایا تھا اور اس سے چنگاریاں نکلی تھیں تو کنٹرولرز نے اسے ضرور دیکھا ہو گا تو اے ٹی سی نے پائلٹ کو دوبارہ اتارنے کی اجازت کیوں دی؟ اے ٹی سی کو پائلٹ کو بتا دینا چاہیے تھا کہ ان کے پاس فوری طور پر ہنگامی لینڈنگ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

ایک ریٹائرڈ پائلٹ نے بتایا کہ لینڈنگ کی منسوخی کے بعد طیارے کی دوبارہ پرواز سے ایسا معلوم ہوا جیسے پائلٹ ہنگامی صورتحال سے لاعلم تھا، جہاز رن وے سے بہت دور چلا گیا تھا اور کورنگی صنعتی علاقے کے قریب تھا جس کی وجہ سے طیارہ گلائڈنگ رینج سے دور ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے مسافر کی روداد

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا معلوم ہوا جیسے اے ٹی سی اور کراچی راڈار نے طیارے کو فوری طور پر لینڈنگ کرنے پر مجبور کرنے کے حوالے سے کوئی رد عمل نہیں دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ لینڈنگ ترک کرکے ٹیک آف کے بعد پائلٹ کو دوبارہ لینڈنگ کے لیے کہا، ایک بہتر نظریے کے لیے پائلٹ کو رن وے لینڈنگ سائیڈ سے 10 میل دور جانا ہوتا ہے اور لینڈنگ تک ادھر ادھر گھومنے کے بعد لینڈنگ کی تیاری کے لیے کم از کم 10-12 منٹ تک ہوا میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ پائلٹ نے دوسرا طریقہ طلب کیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ طیارے کے انجنز میں اس وقت تک ہونے والے نقصان سے واقف نہیں تھا جب تک کہ وہ اپنے انجنز کو زمین سے پروان بھرتے ایک ہزار 800 فٹ کی بلندی پر کھو بیٹھا تھا جس کا اعلان اس نے اے ٹی سی کو کیا جب اس کے پاس ہنگامی لینڈنگ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب پائلٹ نے انجنز کو کھودیا تو وہ فیصل رن وے کے بہت قریب تھا، جو طیارے کے گلائڈنگ رینج میں تھا، صرف 90 ڈگری دائیں موڑ کر وہاں زبردستی لینڈنگ کرنا ممکن تھا۔

سپریم کورٹ: کمرہ عدالت میں سماجی دوری پر عمل نہ ہونے پر چیف جسٹس برہم

کورونا وبا: ملک میں ایک روز میں کورونا کے 4 ہزار سے زائد کیسز، پنجاب میں 43 اموات

مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 8.2 فیصد ہوگئی