جریدے جرنل نیچر میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا 'چمگادڑوں میں متعدد اقسام کے کورونا وائرسز موجود ہوسکتے ہیں، مگر سارس کوو 2 کا دوسرا میزبان اب بھی واضح نہیں'۔
تحقیق کے مطابق ایک ملائیشین پینگولین میں ایک کورونا وائرس کو الگ کرنے پر اس کے ای، ایم، این اور ایس جینز کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس کیا گیا تو یہ بالترتیب 100 فیصد، 98.6 فیصد، 97.8 فیصد اور 90.7 فیصد ملتے تھے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خاص طور پر پینگولین کورونا وائرس میں خلیات کو متاثر کرنے والے ایس پروٹین بھی نئے نوول کورونا وائرس سے ہوبہو مشابہت رکھتا ہے،بس ایک غیر اہم امینو ایسڈ فرق ہے۔
سائنسدانوں نے 17 سے 25 ملائشین پینگولینز میں تجزیہ کرنے کے بعد اس پینگولین وائرس کو شنااخت کیا تھا اور اسے الگ کرنے کے بعد یہ نتیجہ بیان کیا گیا۔
جنوری کے آخر میں ایک جینیاتی تجزیے میں ثابت ہوا تھا کہ انسانوں میں پھیلنے والے وائرس کا جینیاتی سیکونس چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے 96 فیصد تک ملتا جلتا ہے۔
مگر اس وقت یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ کونسا جانور سے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا کیونکہ ایسے متعدد جاندار ہیں جو وائرسز کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں اور لگ بھگ کورونا وائرسز کی تمام اقسام انسانوں میں جنگلی حیات سے پھیلے۔
اس سے قبل فروری میں ایک تحقیق میں چینی سائنسدانوں نے شک طاہر کیا تھا کہ معدومی کے خطرے سے دوچار پینگولین چمگادڑوں اور انسانوں کے درمیان وائرس کے پھیلائو کی گمشدہ کڑی ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح مارچ میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ پینگولینز کی کچھ تعداد میں ایسے کورونا وائرسز موجود ہیں جن کو اس وقت دنیا میں پھیلی کووڈ 19 کی عالی وبا سے جوڑا جاتا ہے۔
اس دریافت سے پینگولین چمگادڑوں کے بعد واحد ممالیہ جاندار بن جاتے ہیں جو نوول کورونا وائرس کا شکار بنتے ہیں۔
اس تحقیق میں وبا کے پھیلائو کے لیے پینگولینز کے کردار کو نہ تو ثابت کیا گیا اور ہی ان کے کردار سے انکار کیا گیا، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس جانور نے نئے کورونا وائرس کے پھیلائو میں ممکنہ طور پر کردار ادا کیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق چمگادڑ وہ جاندار ہے جس میں نوول کورونا وائرس موجود ہوسکتا ہے، مگر یہ براہ راست اس پرندے سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوا بلکہ یہ کردار کسی اور جانور نے ادا کیا۔
پینگولین کو چین اور چند دیگر ممالک میں کھایا جاتا ہے جبکہ اس کی پرت جیسی کھال کو روایتی ادویات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
چین میں پینگولین کے گوشت کو کھانا غیرقانونی ہے مگر یہ پھر بھی وہاں مل جاتا ہے، اکثر پینگولینز کو جانوروں کی مارکیٹ میں فروخت بھی کیا جاتا تھا مگر 26 جنوری کے بعد ایسی تمام مارکیٹیں حکومتی احاکات پر بند کردی گئیں۔
مارچ میں ہونے والی تحقیق میں پینگولینز میں دریافت ہونے والی کورونا وائرسز کی مختلف اقسام کے جینیاتی سیکونسز نئے نوول کورونا وائرس سے 88.5 سے 92.4 فیصد تک ملتے جلتے ہیں۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے 2017 اور 2018 کے دوران ایسے 18 پینگولینز کے ٹشوز کے مونوں کا تجزیہ کیا گیا جن کو اینٹی اسمگلنگ آپریشنز کے دوران بازیاب کرایا گیا تھا۔
محققین نے 18 میں سے 5 پینگولینز کے نمونوں میں کورونا وائرسز کو دریافت کیا۔
انہوں نے بعد میں مزید پینگولینز کے نمونوں کے ساتھ یہ عمل دہرایا اور ان میں بھی کورونا وائرسز کو دریافت کیا، جس کے بعد انہوں نے ان وائرسز کے جینومز کے سیکونس کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس سے کیا۔
محققین نے بتایا کہ جینیاتی مماثلت اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ پینگولینز ہی وہ عارضی میزبان ہے جس نے چمگادڑوں سے سارز کوو 2 کو انسانوں میں منتقل کیا، مگر انہوں نے اس امکان کو مسترد بھی نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پینگولینز کو مستقبل میں نئے کورونا وائرسز کے ممکنہ میزبانوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس تحقیق کے نتائج کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر دیگر جانداروں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جنہوں نے ہوسکتا ہے کہ اس وبا کو انسانوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہو۔