مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے اسلام آباد میں آلودگی کے معاملے پر واضح کیا ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اسلام آباد میں فضائی آلودگی سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر موٹروے کی طرف سے پہاڑ دیکھیں تو سارا پہاڑ کٹا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ اب تھوڑا سا پہاڑ بچا ہے اور اس کو ہم نے بچایا ہے، وفاقی حدود (آئی سی ٹی) کے اندر کان کنی نہیں ہوسکتی جبکہ یہ علاقہ سیکڑوں کلو میٹرز پر محیط ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ حدود ایبٹ آباد تک جاتی ہے۔
دوران سماعت عدالت میں موجود سپریم کورٹ بار کے صدر سید قلب حسن نے استدعا کی کہ ان کی میری درخواست اور ریکارڈ کو بھی دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ سروے آف پاکستان سے نشاندہی کی گئی ہے کہ ہزار میٹر کے فاصلے پر بفرزون کے بعد یہ پلانٹ لگے ہوئے ہیں۔
سید قلب حسن کا کہنا تھا کہ ملک کے اہم تعمیراتی منصوبوں کے لیے سامان یہاں سے جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سارا ریکارڈ ہمارے پاس ہے اور ہم مارگلہ پہاڑوں پر توڑپھوڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیشنل پارک کا مقصد جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ ہے اور آئی سی ٹی کی حد تک پہاڑ کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: مونال ریسٹورنٹ کی زمین فوج واپس لینا چاہتی ہے، سی ڈی اے
انہوں نے کہا کہ یہ پہاڑ قومی اثاثہ ہیں، اسے خراب نہیں ہونے دیں گے۔
اسی دوران چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ملک کے کسی بھی علاقے سےکرش لے لیں لیکن یہاں سے اجازت نہیں دیں گے، جس پر صدر سپریم کورٹ بار سید قلب حسن نے کہا کہ مخدوم علی خان کی جانب سے بھی ایک کیس میں درخواست آئی ہے لیکن آج ان کو ایمرجنسی کے باعث کراچی واپس جانا پڑا۔
انہوں نے استدا کی کہ عدالت آج اس کیس کو ملتوی کردے، بعد ازاں کیس کی سماعت کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
نعمت اللہ خان اور شجاع الرحمٰن لیجنڈ میئرز تھے، جسٹس عمرعطا بندیال
دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں ہی چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے میئر کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی، جہاں میئر اسلام آباد کی سخت سرزنش کی گئی۔
چیف جسس نے میئر اسلام آباد شیخ انصرعزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اسلام آباد کے لیے اب تک کیا ہی کیا ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ عدالت نے مجھے اختیارات دینے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو عہدہ چھوڑ دیں، دوبارہ الیکشن میں عوام کے سامنے کیسے جائیں گے، 'میئر صاحب' کیا آپ من و سلویٰ کے انتظار میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:میئر اسلام آباد کی معطلی کا حکم کالعدم، عدالت نے کام کی اجازت دے دی
سماعت کے دوران میئر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ لکیر کے فقیر نہ بنیں، آپ منتخب نمائندے ہیں، آپ اپنی جرات دکھائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم نہیں آپ عدالت کے علاوہ کہیں اور جاتے ہیں یا نہیں، آپ تو زیادہ وقت پاکستان سے باہر ہی گزارتے ہیں تاہم میئر نے جواب دیا کہ 6 ماہ سے بیرون ملک نہیں گیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کورونا کی وجہ سے آپ پھنسے ہوئے ہیں، نیت صاف نہ ہو تو کام نہیں ہوتے۔
اس موقع ہر عدالت عظمیٰ کے بینچ کے رکن جسٹس عمر عطابندیال ریمارکس دیے کہ نعمت اللہ خان اور شجاع الرحمٰن لیجنڈ میئرز تھے، ہم نے میئرز کو اپنے ہاتھوں سے کام کرتے دیکھا ہے نہ کہ لیٹر بازی کرتے ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 ہزار سے زائد کا عملہ کر کیا رہا ہے پوا سارا اسلام آباد تو گندا پڑا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے میئر اسلام آباد کے اختیارات پر کمیٹی تشکیل دے دی جس میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد شامل ہیں۔
عدالت نے کمیٹی کوایک ماہ میں میئر کے اختیارات کا مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز کی 90 دن کی معطلی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں کام کی اجازت دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:وفاقی حکومت نے میئر اسلام آباد کو 90 روز کے لیے معطل کر دیا
رواں سال کے اوائل میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے میئر اسلام آباد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں ان پر اختیارات کے غلط استعمال اور سرکاری املاک، عملے اور وسائل کو ذاتی طور پر استعمال کرنے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
یہ ریفرنس کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے رکن ہمایوں اختر کی جانب سے فائل کیا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی نواز اعوان کی زیر سربراہی قائم مقامی حکومت کے کمیشن نے معاملے کی تحقیقات تک میئر کو معطل کرنے کی سفارش کی تھی۔
البتہ شیخ انصر عزیز نے اس ریفرنس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
بعدازاں 17 مئی کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد حکومت نے میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز کو 90 روز کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔