نقطہ نظر

سرد جنگ کا آغاز ہوچکا، بس اعتراف باقی ہے

چین بھی اس سرد جنگ میں اپنی پسند کے محاذ کھولنے پر مجبور ہوگا اور بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی چین کا پسندیدہ محاذ ہوسکتا ہے۔

لداخ میں حالیہ بھارت چین سرحدی کشیدگی کے بعد یورپی میڈیا میں مکمل جنگ کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس پر چین کے خلاف مہم اور تجارتی تنازع کے باوجود دونوں ملکوں میں ثالثی کی پیشکش بھی کردی ہے، جبکہ بھارت اور چین کی طرف سے بارڈر پر فوجوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

بھارتی دعوے کے مطابق چین لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے اندر تک آچکا ہے۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصویروں میں ایل اے سی کے اندر مبیّنہ بھارتی حدود میں چین کے فوجی 60 خیمے لگا چکے ہیں جبکہ چین کی اپنی حدود میں 100 خیمے نصب کیے جا چکے ہیں۔ بھارتی دعوے کے مطابق چین بھارتی مشینری کی مدد سے بنکرز بھی بنا رہا ہے۔ اس تنازع کو سمجھنے کے لیے بھارت چین سرحدی تنازع کو 1950ء کے عشرے سے دیکھنا پڑے گا۔

بھارت چین تنازع کا تفصیلی پس منظر

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے اگست 1963ء میں تیار کیے گئے ورکنگ پیپر میں اس تنازع کو امریکی نظر سے دیکھا گیا ہے لیکن اس سے تنازع کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس ورکنگ پیپر کو پہلے ٹاپ سیکریٹ قرار دیا گیا تھا تاہم اب وہ ڈی کلاسیفائیڈ کردیا گیا ہے۔ یہ ورکنگ پیپر 1959ء کے اوائل سے 1963ء کے اواخر تک کے حالات پر مبنی ہے۔ 24 اکتوبر 1959ء میں جاری ہونے والا سی آئی اے کا سینٹرل انٹیلی جنس بلیٹن بھی چین بھارت سرحدی جھڑپ پر روشنی ڈالتا ہے۔

سی آئی اے کے سینٹرل انٹیلی جنس بلیٹن کے مطابق نئی دہلی نے 21 اکتوبر کی سرحدی جھڑپ پر سخت احتجاج کیا، مشرقی کشمیر کے علاقے لداخ میں ہونے والی اس جھڑپ میں 17 فوجی مارے گئے تھے۔ نئی دہلی کے ترجمان نے چین کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا کہ بھارتی فوجیوں نے چین کے علاقے میں دراندازی کی تھی اور چین کے گشت کرنے والے فوجی قافلے پر فائرنگ کی تھی۔

امریکی سی آئی اے کی نظر میں یہ واقعہ منصوبے کے تحت پیش نہیں آیا تھا کیونکہ دونوں حکومتیں مذاکرات کی تیاری کر رہی تھیں۔ چین نے اس واقع پر مؤقف اپنایا تھا کہ اس کے فوجی اپنے دفاع میں فائرنگ پر مجبور ہوئے تھے۔ چین نے بھارت پر زور دیا تھا کہ چین کی سرحدوں کی خلاف ورزی کے واقعات کو مستقبل میں روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مزید پڑھیے: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

انٹیلی جنس بلیٹن میں کہا گیا کہ نہرو نے 8 اکتوبر کو کہا کہ ان کی حکومت اس موقع پر کوئی فوجی آپریشن نہیں کرے گی۔ ماؤزے تنگ نے بھی حال ہی میں بھارت کے کمیونسٹوں کو یقین دلایا کہ چین بھارت کے خلاف جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سی آئی اے نے اپنے تجزیے میں کہا کہ لداخ کا واقع اور دونوں طرف سے احتجاجی بیانات بھارتی عوام اور حکام کے مؤقف کو سخت کرسکتے ہیں جس سے اس ’سازگار ماحول‘ میں رکاوٹیں کھڑی ہوسکتی ہیں جس کے لیے ماؤزے تنگ مذاکرات سے پہلے مطالبہ کرتے ہیں۔

سی آئی اے کے ورکنگ پیپر کے مطابق 10 نومبر کو نہرو نے مذاکرات کے لیے پیشگی شرط رکھی کہ دونوں طرف کی فوجیں ایل اے سی پر واپس اپنی روایتی پوزیشنوں پر چلی جائیں۔ 17 دسمبر کو چینی وزیرِاعظم چو این لائی نے جوابی خط لکھا کہ بھارتی شرائط یا تجاویز ایک تھیوری کی حد تک ہیں کیونکہ بھارت کا کوئی فوجی وہاں موجود ہی نہیں جہاں سے انخلا کی بھارتی تجویز دی جا رہی ہے۔ چو این لائی نے علاقے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ ایک وسیع علاقے سنکیانگ اور تبت کو ملانے کے لیے اہم ہے۔

بھارتی حکومت نے علاقے میں ستمبر 1958ء تک چین کی طرف سے کسی سڑک کی تعمیر سے لاعلمی کا اظہار کیا اور دنیا بھر میں اپنے سفیروں کو یہ مؤقف اپنانے کی ہدایت کی کہ کسی پڑوسی ملک کی طرف سے دخل اندازی اس بنیاد پر اس علاقے پر قانونی حق کا جواز نہیں بخشتی کہ وہ ملک اپنے علاقے میں دخل اندازی سے لاعلم تھا یا اس نے مزاحمت نہیں کی۔ چو این لائی نے اپنے خط میں لکھا کہ سرحدی جھڑپ کے بعد چین نے علاقے میں فوجی گشت روک دیا ہے، چو این لائی نے نہرو سے کہا کہ مذاکرات کے بنیادی اصول طے کرنے کے لیے بالمشافہ ملاقات کی جائے۔ چو این لائی نے اشارہ دیا کہ وہ میک موہن لائن کے جنوبی علاقے سے اقصائے چین کے بدلے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ نہرو جنوری 1960ء تک ملاقات سے گریزاں رہے اور پھر اپنے سفیر اور چند وزرا کے مشورے پر ملاقات کے لیے راضی ہوگئے۔

اس عرصے میں روس کے صدر خروش چیف نے چین بھارت تنازع پر کئی بیانات دیے اور کہا کہ چین کی فوجی کارروائیاں ماسکو اور دہلی کے تعلقات کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ نومبر میں خروش چیف نے اس تنازع کو افسوسناک اور احمقانہ کہانی قرار دیا۔ خروش چیف کے بیانات نے بھارتی سفارتکاروں کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ سوویت یونین نے اس تنازع میں براہِ راست مداخلت کی ہے لیکن جب بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کے ثبوت مانگے گئے تو سوویت یونین نے مؤقف اپنایا کہ سوویت یونین نے بیجنگ پر جلد از جلد مذاکرات پر زور دیا تھا۔ سوویت یونین کا حقیقت میں چین پر کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا بلکہ چینی حکام خروش چیف کے بیانات پر ناراض تھے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے ایک امریکی عہدیدار کو بتایا کہ خروش چیف اس معاملے میں غیر جانبدار رہے اور ان کے خیال میں سوویت یونین کے دونوں دوست ملک تنازع کو باہم حل کرلیں گے۔

نومبر 1960ء میں چینی حکام نے برما کو سرحدی تنازعات کے حل کے لیے بیجنگ آنے پر راضی کیا تاکہ سرحدی تنازعات دوستانہ طریقے سے حل کرنے کی مثال قائم کی جاسکے۔ چین کا خیال تھا کہ برمی وزیرِاعظم کے ساتھ سرحدی تنازع جلد از جلد حل کرکے وہ نہرو کو مذاکرات پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ برما کے وزیرِاعظم نے اندازہ لگایا کہ چین ان کے ساتھ سرحدی تنازع خروش چیف کے دورہ نئی دہلی سے پہلے حل کرنا چاہتا ہے تاکہ نئی دہلی کے اس مؤقف کو جھٹلا سکے کہ چین تنازعات کو حل کرنے سے انکاری ہے۔

پارلیمنٹ اور میڈیا کے دباؤ میں نہرو نے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی اور 5 فروری 1960ء کے خط میں چو این لائی کو مذاکرا ت نہیں، بلکہ ملاقات کے لیے نئی دہلی آنے کی دعوت دی۔ فروری اور مارچ میں اشارے ملنے لگے کہ نہرو اقصائے چین پر بھارت کا برائے نام اختیار برقرار رکھتے ہوئے سنکیانگ تبت روڈ چین کے استعمال میں دینے کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ چینی حکام بھارت کے مؤقف میں اس نرمی کو بھانپ گئے اور بے معنی ملاقات کی بجائے بامقصد مذاکرات کی تیاری میں لگ گئے۔ چین کے حکام نے اپنی آمادگی کو معتبر بنانے کے لیے نہرو کی طرف سے دو بار دورے کی دعوت مسترد کرنے کے باوجود چو این لائی کے دورہ نئی دہلی پر آمادگی دکھائی اور برما کے ساتھ سرحدی معاہدے کے صرف 2 ماہ بعد ہی نیپال کے ساتھ مارچ میں سرحدی معاہدہ کرلیا۔

چو این لائی کی طرف سے اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ 6 روزہ دورہ نئی دہلی کی تجویز پر بھارتی حکام ششدر رہ گئے۔ نہرو کے مشیروں نے یہ بات نوٹ کی کہ نئی دہلی تعلقات میں بہتری کے لیے نہرو، چو این لائی ملاقات چاہتا ہے جبکہ چو این لائی کی طرف سے دورے کی قبولیت کا خط سرحدی تنازعات کے ٹھوس حل کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جب نہرو سے پوچھا گیا کہ چو این لائی نئی دہلی میں 6 دن کیا کریں گے تو نہرو نے کہا کہ چو این لائی ایک ملاقات میں 3 سے 4 گھنٹے بلاتکان بول سکتے ہیں۔ نہرو کو مشیروں نے مشورہ دیا کہ وہ چو این لائی کے ساتھ ملاقات میں ذہن تبدیل نہ کریں۔

اپریل میں چو این لائی بھاری بھرکم وفد کے ساتھ نئی دہلی پہنچے۔ نہرو کے ساتھ وفود کی سطح اور تنہائی میں ملاقاتوں میں چو این لائی کو کامیابی نہ ملی۔ 3 دن کی مسلسل ملاقاتوں میں لداخ پر بھارتی مؤقف تبدیل نہ ہوا۔ اس پر چو این لائی نے بھی مقبوضہ بھارتی علاقے چھوڑنے سے انکار کردیا۔ چین نے فروری اور مارچ میں بھارتی مؤقف میں نرمی کے درست اندازے لگائے تھے لیکن اپریل کے آخر تک یہ اندازے درست نہیں رہے تھے اور نہرو کے مشیر ان کے مؤقف کو سخت کر چکے تھے۔ یہ ملاقاتیں ناکام رہیں اور نہرو نے معاملہ اپنے ماتحت حکام پر چھوڑ دیا تاکہ وہ چین کے ہم منصبوں سے ملاقاتوں میں معاملے کے قانونی اور تاریخی پہلوؤں کا جائزہ لے سکیں۔

1960ء کے آخر تک درمیانے درجے کے حکام کے مابین مذاکرات چلتے رہے لیکن نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔ چین نے مستقل فوجی گشت بند کرکے وقتاً فوقتاً گشت کی پالیسی اپنائی اور فوج کو فائرنگ سے گریز کا حکم دیا تاہم چین نے نومبر 1960ء میں یہ اندازہ لگا لیا کہ بھارت مقبوضہ علاقے چھڑانے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کی فوجی صلاحیت کم ہے۔ لیکن چین نے گشت معطل کرنے کے باوجود نئی پوسٹوں کی تعمیر جاری رکھی۔ چینی حکام نے مذاکرات کے دوران بھارتی ہم منصبوں کو علاقے کا نیا نقشہ بھی دیا جس میں بھارتی دعوے کے علاقے بھی شامل تھے۔ بھارت نے علاقے پر چینی فضائیہ کے گشت پر اعتراض کیا تو چو این لائی نے نہرو سے کہا کہ وہ ان طیاروں کو مار گرائیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ یہ طیارے چین کے نہیں۔ لیکن بھارت ایسا کرنے سے ہچکچاتا رہا اور احتجاج بھی کرتا رہا، شاید بھارت نے چین کا دعویٰ مان لیا تھا کہ یہ طیارے امریکی ہیں لیکن اس کا کھلے عام اعتراف کرنے میں بھی گریز کرتا رہا۔ جنوری 1961ء تک چین کی پالیسی نئی دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات کی تھی اور کھلی جنگ کو ناممکنات میں تصور کیا جا رہا تھا۔ یہ چیئرمین ماؤ کا سفارتکاری میں برداشت کا فلسفہ تھا۔ ان کا تصور تھا کہ ہمیں اپنی جدوجہد میں مخالف فریق کو کچھ چھوٹ دینی چاہیے۔

بھارت کے ساتھ مذاکرات میں چین کو خدشہ تھا کہ ان سرحدی جھڑپوں کو جواز بناکر نہرو یا ان کی پوری حکومت کو چلتا کیا جاسکتا ہے یا بھارت امریکی دھڑے میں جاسکتا ہے اور امریکا اس بہانے چین کے گھیراؤ کے لیے بھارت میں اڈے بنا سکتا ہے۔ ماؤزے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی کے پہلے وائس چیئرمین لیو شاؤ چی نے بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین اجے گھوش سے اکتوبر 1959ء کی ملاقاتوں میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

لیو شاؤچی نے اجے گھوش سے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں فوجی حکومت کے قیام کو سنجیدگی سے لیا ہے، امریکی سرمایہ دار خطے میں بڑی قوموں کو قبضے میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصاً وہ ملک جو سوویت یونین اور چین کے ہمسائے میں ہیں۔ برما، جاپان، پاکستان، نیپال، سیلون، بھارت اور دیگر ملک جیسے انڈونیشیا۔ یہ وہ بڑے ملک ہیں جن کے ذریعے 2 عظیم سوشلسٹ ملکوں سوویت یونین اور چین کو گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس طریقے سے امریکا کے سرمایہ دار سوشلسٹ کیمپ کے ملکوں کو فوجی طور پر گھیرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور برما میں وہ کامیاب ہوچکے ہیں، اور انڈونیشیا میں وہ اس کو دہرانے کی ابھی تک کوشش کر رہے ہیں، پاکستان میں کامیابی کے بعد امریکی یہی سب کچھ بھارت میں کرنے کی کوشش میں ہیں۔

فوجی طور پر چین کے گھیراؤ کے خدشات کو تقویت 1957ء سے 1961ء تک بھارت کے آرمی چیف رہنے والے جنرل کودندر تھمیا کے رویے سے بھی ملی جنہوں نے کرشنا مینن کو وزیرِ دفاع کے عہدے سے ہٹوانے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے چینی حکام کے خدشات بڑھ گئے تھے کہ بھارت بھی امریکی منصوبے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔

چینی حکام کے خیال میں جنرل کودندر تھمیا دائیں بازو کا تھا جو چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کی آڑ میں بھارت کو امریکی مدد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا تاکہ چین کو تنہا کیا جاسکے۔ کمیونسٹ پارٹی چین کے وائس چیئرمین لیو شاؤ چی کا خیال تھا کہ ممکن ہے کہ نہرو دائیں بازو والوں کے حق میں فیصلہ کر لے لیکن فی الوقت اسے ایسا کرنے سے روکا جانا چاہے۔

مزید پڑھیے: نئی بھارتی سڑکیں چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی وجہ بنیں، مبصرین

چین کے حکام نہرو کے متعلق خدشات کے باوجود انہیں بھارت کی دیگر سیاسی و عسکری قیادت سے بہتر خیال کرتے تھے۔ بھارت میں فوجی حکومت کا راستہ روکنے کے لیے چین نے بھارت میں پاکستان اور برما جیسے حالات پیدا نہ رہنے دینے کی حکمتِ عملی اپنائی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو دائیں بازو کے مقابلے میں نہرو کی حمایت کی ہدایت کی گئی اور یوں بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع کو سازگار ماحول میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔

19 اکتوبر کو جب چو این لائی نے نہرو کو خط لکھا کہ بھارت کے نائب صدر رادھا کرشن بیجنگ کا دورہ کریں، ممکن ہے یہ دورہ مذاکرات کا نکتہ آغاز ثابت ہو۔ چین کے سدیر نے 24 اکتوبر کو جب یہ خط پہنچایا تو نہرو اور بھارت کے نائب صدر شدید غصے میں تھے کیونکہ 21 اکتوبر کو چین کے فوجی فائرنگ کرکے 17 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرچکے تھے، یوں یہ موقع بھی ضائع ہوگیا۔

7 نومبر کو چو این لائی نے ایک خط میں مذاکرات کو فوری نوعیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے نہرو سے جلد ملاقات کی خواہش ظاہر کی تاکہ بارڈر تنازع پر بات کی جائے۔ چو این لائی نے مستقبل میں مزید سرحدی جھڑپوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔ چو این لائی نے مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے دونوں ملکوں کی افواج کو میک موہن لائن اور ایل اے سی سے ساڑھے 12 میل پیچھے ہٹانے کی بھی تجویز دی۔ چو این لائی کی یہ تجویز ان کی 8 ستمبر کی تجویز کا ہی ایک نیا رخ تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سرحد کو جوں کا توں مان لیا جائے اور سرحد پر فوج کی بجائے غیر مسلح بارڈر پولیس تعینات کردی جائے۔ جوں کا توں ماننے کا مطلب تھا کہ میک موہن لائن کو بارڈر ماننے کے ساتھ شمالی لداخ پر چین کا کنٹرول تسلیم کرلیا جائے۔ افواج واپس بلانے کی تجویز کا مطلب یہ تھا کہ چند مخصوص پوسٹوں سے فوج ہٹائی جائے گی۔ نہرو نے اس بات کو تسلیم کیا نہ مسترد بلکہ یہ کہا کہ چین کی تجویز بنفسہ بُری نہیں۔

12 نومبر کو چین نے بھارت کو آگاہ کیا کہ وہ 10 بھارتی فوجیوں (بھارت انہیں بارڈر پولیس کہتا تھا) کو رہا کرنے اور 9 فوجیوں کی لاشیں واپس کرنے کو تیار ہے۔

14 نومبر کو قیدی اور لاشیں بھارت کے حوالے کردی گئیں۔ گرفتار بھارتی فوجی گروپ کے سربراہ کرم سنگھ نے کہہ دیا کہ چین کی فوج نے 21 اکتوبر کی جھڑپ میں مارٹر استعمال نہیں کیے تھے، جس پر چین کے خلاف بھارت میں پروپیگنڈا شروع ہوگیا کہ اس نے بھارتی فوجیوں کی برین واشنگ کی ہے اس پروپیگنڈے سے ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔

16 نومبر کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے قیدی فوجیوں پر تشدد اور بدسلوکی کا الزام لگایا اور کرم سنگھ کی طرف سے چینی تفتیش کاروں کے ظلم کا بیان بھی شامل کیا گیا۔

17 نومبر کو نہرو نے چین کو خط لکھ کر پھر پیشگی شرائط عائد کردیں اور مبیّنہ مقبوضہ علاقہ خالی کرنے کے علاوہ پورے لداخ میں دونوں طرف سے فوج پیچھے ہٹانے کی شرط لگادی۔ نہرو، چو این لائی فوری ملاقات کی بجائے درمیانے درجے کے عہدیداروں کے مذاکرات اور بنیادی سمجھوتے پر پہنچنے کے بعد سربراہِ ملاقات کی شرط رکھی گئی۔ پورے بارڈر پر دونوں طرف کی افواج کی ساڑھے 12 میل واپسی کی تجویز مسترد کردی گئی اس کی بجائے گشت روکنے کی تجویز دی گئی۔

بھارت کے اندر نہرو پر دباؤ کم نہ ہوا اور آرمی چیف نے کرشنا مینن کو نہ ہٹانے کی صورت میں استعفے کی دھمکی دے دی۔ نہرو نے پارلیمنٹ میں آکر کرشنا مینن کی حب الوطنی کا دفاع کیا اور امید ظاہر کی کہ آرمی چیف استعفیٰ واپس لیں گے۔ نہرو نے ملک کے دفاع کی ذمہ داری اکیلے کرشنا مینن پر ڈالنے کی بجائے کہا کہ ملکی دفاع پوری کابینہ کی ذمہ داری ہے۔

19 نومبر کو نہرو نے اقصائے چین میں چین کی طرف سے ایئر اسٹرپ بنانے کی تردید اور تصدیق دونوں سے گریز کیا اور کہا کہ علاقہ چونکہ چین کے کنٹرول میں ہے اس لیے انٹیلی جنس معلومات مشکل ہیں۔

17 دسمبر کو چو این لائی نے نہرو کے خط کا جواب دیا اور اقصائے چین پر بیجنگ کے حق کا پہلے کی نسبت زیادہ سختی سے اعادہ کیا ساتھ ہی چو این لائی نے لداخ سے فوج کی واپسی پر سابقہ مؤقف دوہرایا کہ جب بھارتی وہاں موجود ہی نہیں تو واپس کیسے جائیں گے۔ لداخ کی سنکیانگ اور تبت کے لیے آمد و رفت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے چو این لائی نے کہا کہ 1950ء سے چین کی فوج تبت کے لیے سپلائی اسی راستے سے کر رہی ہے اور 1956ء سے یہاں سڑک تعمیر کی گئی ہے جس سے بھارت لاعلم تھا کیونکہ یہ علاقہ عرصے سے چین کا حصہ ہے۔

چو این لائی نے لکھا کہ وہ اگست 1968ء میں قبضے میں لیے گئے علاقے لانگجو سے نکلنے کو تیار ہیں لیکن بھارت کو بدلے میں 10 متنازع پوسٹیں خالی کرنا ہوں گی۔ چو این لائی نے سربراہ ملاقات ضروری قرار دیتے ہوئے 26 دسمبر کی تاریخ بھی دی اور کہا کہ ملاقات چین یا رنگون میں رکھی جائے۔ چو این لائی نے کہا کہ سربراہ ملاقات میں بنیادی نوعیت کا سمجھوتہ ہونے سے پہلے وزارتی سطح کی ملاقاتیں بے فائدہ ہیں۔

نہرو نے 21 دسمبر کو چو این لائی کی تجاویز مسترد کردیں اور خود سے کوئی نئی تجویز نہ دی۔ نہرو نے کہا کہ وہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت ملاقات کے لیے تیار ہیں لیکن جب تک حقائق پر اتفاق نہ ہو ایسی ملاقاتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا کے دباؤ نے نہرو کا مؤقف سخت کردیا۔ چو این لائی بھارتی ہم منصب سے مذاکرات کے لیے اس قدر پُرامید تھے کہ انہوں نے برما کے وزیرِاعظم سے رابطہ کرکے مجوزہ ملاقات کے لیے سہولت پر بات بھی کرلی تھی لیکن نہرو نہ مانے۔ یوں حالات 1962ء کی جنگ تک جا پہنچے اور بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور بڑا علاقہ بھی گنوا بیٹھا۔

چین بھارت تنازع کی تفصیل طویل ہوگئی لیکن اس کا مقصد چین اور بھارت میں پائی جانے والی سوچ کو واضح کرنا تھا۔ آج مودی ٹرمپ دوستی اور امریکا بھارت قربت ایک بار پھر چین کے خدشات کو تقویت دے رہی ہے کہ امریکا اس کا گھیراؤ کرنے کو ہے اور بھارت کا دائیں بازو اس کی مدد کو پوری طرح تیار ہے۔ بھارت کے وزیرِاعظم اور ڈیفنس چیف دونوں دائیں بازو کے ہیں یوں چین کے خدشات نہرو دور سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ اس وقت صرف آرمی چیف اور سیاست دانوں کا ایک گروپ نہرو پر بھاری پڑ رہے تھے اب تو بھارت پوری طرح قوم پرستی میں ڈوبا ہے۔ نہرو کا بھارت کسی حد تک غیر جانبدار تھا مگر مودی کا بھارت تو امریکا کی گود میں ہے۔

ہمسایہ ملکوں میں بیٹھ کر چین کا گھیراؤ کرنے کی امریکی پالیسی 2 قدم آگے بڑھ گئی ہے، اب امریکا ہانگ کانگ میں علیحدگی پسندی کو کھلے عام ہوا دے رہا ہے، تائیوان کو آزاد ملک کے طور پر عالمی اداروں کی رکنیت دلوانے کی کوشش کر رہا ہے، تائیوان کو اسلحہ بیچنے میں لگا ہے، بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحریہ کی بار بار گشت کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب چین کو بتا کر اس سے ہرجانہ لینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں کورونا وائرس کی تحقیقات کی قرارداد چین کو اشتعال دلانے کے لیے کافی ہے۔ چین کی کمپنیوں پر امریکی پابندیاں، چین کی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے کمپنیوں کو چین چھوڑنے پر مجبور کرنا ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ لداخ میں محاذ کھول کر چین بھی اشارے دے رہا ہے ۔

چین کی پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ وانگ یی نے کھل کر کہہ دیا کہ امریکا کی کچھ سیاسی قوتیں دونوں ملکوں کو سرد جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ وانگ یی نے خبردار کیا کہ واشنگٹن تائیوان میں سرخ لکیر کو عبور کرنے کی غلطی نہ کرے۔ تائیوان چین میں ضم ہوکر رہے گا۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کی طرف سے ہانگ کانگ کو خصوصی تجارتی درجہ دینے اور چین کے نیشنل سیکیورٹی بل پر تنقید کے جواب میں چین کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہانگ کانگ چین کا اندرونی معاملہ ہے اور تمام ملک عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہیں۔

چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا پہلا محاذ ہانگ کانگ ہے، امریکی صدر نے چین کا نیشنل سیکیورٹی بل ہانگ کانگ میں نافذ ہونے کی صورت میں شدید ردِعمل کی دھمکی دے رکھی ہے۔ چین بھی اس سرد جنگ میں اپنی پسند کے محاذ کھولنے پر مجبور ہوگا اور بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی چین کا پسندیدہ محاذ ہوسکتا ہے۔ ایک سوال جو کبھی امریکی بڑی رعونت کے ساتھ دنیا کے ملکوں سے پوچھتے تھے اب چینی بھی یہی سوال کر رہے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے پر امریکا یورپ کی طرف سے سفری پابندیوں کا اطلاق ہوا، تو جنوب مشرقی ملکوں کمبوڈیا، لاؤس، میانمار اور تھائی لینڈ نے مارچ کے مہینے تک چین کے لیے زمینی فضائی راستے کھلے رکھے۔ چین نے کورونا وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے دنیا کے کئی ملکوں کو سامان اور طبّی عملہ بھجوایا۔ اٹلی سمیت یورپ کے وہ ملک جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں، انہوں نے چین سے شکرگزاری کے ساتھ امداد وصول کی۔

دراصل یہ مہم چین کی طرف سے ایک طرح سے یہی سوال تھا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا خلاف؟ چین نے اس مہم سے ملکوں کا موڈ چیک کرلیا ہے۔ کچھ ملکوں نے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے چین کی بنائی گئی کٹس واپس بھجوا کر یا ان کے نقائص بیان کرکے بتا دیا کہ وہ بیجنگ کے ساتھ نہیں جن میں اسپین بھی شامل ہے جبکہ سویڈن نے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ بند کرکے جواب دیا۔ آسٹریلیا نے چین پر الزامات کی بارش کرکے امریکی کیمپ میں ہونے کا اعلان کیا۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں آسٹریلوی قرارداد پر دستخط کرکے بھارت نے بھی اپنا جواب بیجنگ تک پہنچا دیا تھا۔ یوں سرد جنگ کا نیا دور شروع کرنے کی تیاریاں ہوچکی ہیں بلکہ شاید اس کا آغاز ہوچکا لیکن اعتراف باقی ہے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔