اسمارٹ ٹیسٹنگ کے بغیر اسمارٹ لاک ڈاؤن کا کوئی تصور نہیں


ملک میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ اور مثبت کیسوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو ایک دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے۔ اگر ہر ایک صوبے میں کیے جانے والے ٹیسٹ کے بعد مثبت کیسوں کا جائزہ لیں تو آپ صوبوں کے درمیان تناسب کو مختلف پائیں گے۔
زیادہ واضح انداز میں کہیں تو پنجاب میں سب سے کم مثبت ٹیسٹ دیکھنے کو مل رہے ہیں، جبکہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں کم و بیش ایک ہی سطح پر دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ایک معنی خیز بات ہے کیونکہ ملک میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت محدود ہے جبکہ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے ٹیسٹنگ کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور خاص طور پر اگر ہم 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' کو اپنانے کی باتیں کر رہے ہیں تو یاد رکھیے کہ پھر ہمیں بہت منظم انداز میں ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اسمارٹ ٹیسٹنگ کے بغیر آپ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جاسکتے۔
25 مئی کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ سیچوئیشن رپورٹ فار پاکستان کی بنیاد پر یہاں صوبوں میں مثبت آنے والے ٹیسٹوں کا فیصد کے اعتبار سے تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں جن لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا ان میں سے 9.9 فیصد افراد کے نتائج مثبت آئے۔ سندھ میں یہ تناسب 14.4 فیصد، خیبرپختونخوا میں 15.3 فیصد اور بلوچستان میں 16 فیصد رہا۔ اسلام آباد نے الگ سے اپنے اعداد و شمار جاری کیے تھے، جس کے مطابق وہاں یہ تناسب 4.9 فیصد رہا۔ ملکی سطح پر دیکھیں تو یہ تناسب 11.75 فیصد رہا۔
اگر ہم 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو 2 چیزوں کا لازمی خیال رکھنا ہوگا۔
پہلی، روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ٹیسٹوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کرنا ہوگا۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ٹیسٹنگ شرح کچھ یوں ہے کہ ہر 10 لاکھ افراد میں سے 2 ہزار 227 افراد کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے اور یہاں ہر 10 لاکھ افراد میں سے 262 افراد کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ شرح اگرچہ میکسیکو، مصر اور انڈونیشیا سے تو معمولی فرق کے ساتھ کچھ بہتر ہے لیکن برازیل اور ارجنٹینا سے معقول حد تک کم ہے کیونکہ برازیل میں اس وقت ہر 10 لاکھ افراد میں سے 3 ہزار 461 اور ارجنٹینا میں 2 ہزار 956 افراد کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
دوسری چیز یہ کہ 10 لاکھ افراد کے حساب سے ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بعد اس معیار کو بہتر انداز میں اپنانے کی ضرورت ہوگی کہ کس کا ٹیسٹ ہوا ہے اور کس کا نہیں ہوا۔
مثلاً یہ غور کیجیے کہ اسلام آباد میں ٹیسٹنگ کے عمل کا تناسب ملکی اوسط سے اس قدر نیچے 4.9 فیصد کیسے رہ گیا حالانکہ وفاقی دارالحکومت میں ٹیسٹنگ کٹس پر پیسے بہائے جا رہے ہیں لیکن کسی کو یہ خیال ہی نہیں کہ اس صلاحیت کا معقول انداز میں کس طرح عملی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں بھی تناسب کم دیکھا گیا ہے کیونکہ یہ وہ صوبہ ہے جہاں پیسوں کے عوض نجی ٹیسٹنگ عمل کی شروعات ہوئی تھی، اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ وہاں ٹیسٹ کرنے کے لیے کسی قسم کے معیار کو نہیں اپنایا جا رہا ہے۔ دراصل ابتدائی دنوں میں پنجاب سے متعلق صوبائی اور وفاقی اعداد وشمار میں تضاد کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما تھیں اور جب قومی ادارہ صحت (جو اس وقت کورونا وائرس سے متعلق اعداد وشمار کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ تھا) نے پنجاب سے ٹیسٹوں کی کُل تعداد فراہم کی تو اس میں انہوں سرکاری اور نجی حیثیت میں کیے جانے والے ٹیسٹوں کی الگ الگ تعداد درج کی۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com