عید سے 2 روز قبل، وہ 28واں روزہ تھا جب اہلِ وطن نے قیامتِ صغریٰ کے مناظر دیکھے اور دل تھام لیا۔ لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی پرواز PK-8303 بدترین حادثے کا شکار ہوئی اور طیارہ بے قابو ہوکر قریبی آبادی پر جاگرا۔
اس المناک سانحے میں 98 قیمتی جانیں لقمہءِ اجل ہوئیں اور 2 خوش نصیبوں کو موت چُھو کر نکل گئی۔ ان بدقسمت مسافروں میں سے بیشتر اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کراچی آرہے تھے لیکن افسوس کہ منزل کے قریب پہنچ کر چند منٹوں کا یہ فاصلہ پھیل کر ابدی جدائی پر محیط ہوگیا۔
اب جبکہ اس حادثے کو کئی روز گزر چکے ہیں، بہت سی آرا اور تنقید سامنے آرہی ہے۔ بحث و مباحثے کا ایک طوفان ہے جو ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے لیکن ان سب میں دو تین سوال ایسے ضرور ہیں جن کے جوابات کا ملنا ہماری ایوی ایشن انڈسٹری کی بقا اور آئندہ حادثات سے بچنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ مثلاً
طیارے کی تیکنیکی حالت؟
ایئر پورٹ کے قریب بلند وبالا تعمیرات کی قانونی حیثیت؟
اور پائلٹس کی ذہنی اور جسمانی فٹنس اور تربیت کا نظام؟
ہوائی سفر اور قومی ایئر لائن
دنیا میں ہوائی سفر کس حد تک محفوظ ہے، اس حوالے سے میسا چیوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر آرنلڈ بارنیٹ کی تحقیق کے اعداد و شمار پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر آرنلڈ نے (94ء-1975ء) کے دوران دستیاب فلائٹ ڈیٹا اور ہونے والے حادثات پر باریک بینی سے تحقیق کی۔ ان کے مطابق عام طور پر ہوائی حادثے خال خال ہی رونما ہوتے ہیں مثلاً اگر ایک آدمی روزانہ ہوائی سفر کرے تو 19 ہزار سالوں کے بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق گاڑی سے سفر کے مقابلے میں جہاز کا سفر 19 گنا زیادہ محفوظ ہے۔ ہوائی سفر کو اس حد تک محفوظ بنانے میں آپ ٹیکنالوجی کے کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلائٹ چاہے جتنی بھی ہموار ہو آپ اس کی بنیاد پر لینڈنگ کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ لینڈنگ اور ٹیک آف ایک الگ ہی اہمیت کے حامل عوامل ہیں۔
شہری ہوابازی کے شعبے میں فلائٹ سیفٹی سسٹم میں بہت زیادہ ترقی کی بدولت دنیا بھر میں ہوائی حادثات کی شرح اب بہت کم ہوچکی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ہر 10 لاکھ پروازوں میں سے 6.35 پروازیں حادثے کا شکار ہوجاتی تھیں، جب کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت 2019ء میں یہ شرح گھٹ کر 0.51 فی 10 لاکھ رہ گئی۔
اب پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں۔
اگر صرف پچھلے 10 سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں 2010ء سے اب تک ان 10 سالوں میں 7 چھوٹے بڑے فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں جن میں 400 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ حادثات کی یہ شرح دنیا بھر میں ہونے والے فضائی حادثات کے مقابلے میں انتہائی فکر انگیز ہے اور اگر ان میں وہ حادثات بھی شمار کرلیے جائیں جن میں پرواز کسی حادثے سے بال بال بچی ہو تو یہ شرح اور خطرناک ہوجائے گی۔
مشہور امریکی ڈیٹا سائنسدان نیٹ سلور جو fivethirtyeight.com کے مدیر بھی ہیں، ان کی مہارت اور شہرت اعداد و شمار کی بنیاد پر تجزیہ کاری ہے۔ ان سے کسی نے ایک بار پوچھا تھا کہ کیا حادثے کی شکار کسی ایئر لائن میں سفر کرنا چاہیے یا نہیں، ان کا دوٹوک جواب تھا 'نہیں'۔ انہوں نے اپنے اس مؤقف کو دنیا بھر کی ایئر لائنز کی کارکردگی اور حادثات کے اعداد و شمار سے ثابت کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے عموماً اپنی غلطیاں دہراتے ہیں۔