امریکا چاہتے ہوئے بھی چین سے پنگا کیوں نہیں لے پارہا ہے؟


لفظ ہانگ کانگ اور لفظ فلو کا مجموعہ پرانے قارئین کو گزرا دور یاد دلاسکتا ہے۔ قریب 50 برس قبل مذکورہ الفاظ کا مجموعہ 'ہانگ کانگ فلو' عالمی سطح پر زبان زدِ عام ہوا تھا۔
اس اصطلاح کا بننا فطری تھا اور جہاں تک میرے بچپن کی یادوں کا تعلق ہے تو اس سے کسی بھی قسم کی بڑی ہنگامہ خیزی کا خیال جڑا ہوا نہیں تھا۔ ایسے میں آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ انفلوئنزا اے وائرس کی اس مخصوص قسم H3N2 ایک اندازے کے مطابق 69ء-1968ء میں پوری دنیا میں 10 لاکھ سے 40 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔
اس مرض کے باعث امریکا میں ایک لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے، اتفاق دیکھیے کہ وہاں اس وقت کورونا وائرس کے باعث بھی اتنے ہی لوگ موت کا شکار بنے ہیں۔ ان دنوں ایک منصوبہ بندی کے تحت ہانگ کانگ پر الزامات کی بارش نہیں کی گئی تھی جو اس وقت ابھی برطانیہ کی کالونی تھا۔
سال 2019ء ہانگ کانگ کے لیے افراتفری کا سال رہا اور ان قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر تحرک دیکھنے کو ملا جن کے تحت قانون ہاتھ میں لینے والوں کو چین کے مرکزی علاقوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکیٹو کیری لیم بالآخر متعلقہ بل روکنے پر رضامند ہوچکی ہیں۔
دوسری طرف مقامی قانون ساز کونسل بھی ان قوانین کی منظوری دینے میں ناکام رہی جن کی مدد سے 'نفرت انگیز تقاریر‘، ’نظام اور اداروں کو نقصان پہنچانا‘، 'بغاوت' اور 'غیر ملکی' مداخلت جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے یک پارٹی نظام والے چین کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کو خلافِ قانون قرار دیا جاسکتا تھا۔ سو اب بیجنگ نے اپنے کھیل کے اصولوں میں سلامتی قوانین کو شامل کرتے ہوئے اس کٹھن مرحلے کو بائی پاس کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
حسبِ توقع مغرب میں کچھ عناصر نے خوب تنقید کے نشتر چلائے ہیں لیکن یہ تنقید شاید صرف شعلہ بیانی تک ہی محدود رہے۔ امریکا نے پابندیوں کی دھمکی دی تو ہے لیکن چین پر اپنے اقتصادی انحصار کی وجہ سے وہ بیجنگ سے کھلی دشمنی پر اتر آنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔