سعودی عرب، دبئی میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن میں نرمی
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک نے کورونا وائرس کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن پابندیوں میں نرمی کا اعلان کردیا۔
سعودی عرب نے پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں سرگرمیوں کو جزوی طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کی رپورٹ کے مطابق 31 مئی سے ریاست میں مکہ کے علاوہ تمام شہروں میں نقل و حرکت سمیت دیگر سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو ختم کردیا جائے گا۔
پابندیوں میں صبح 6 بجے سے دن 3 بجے تک نرمی کی جائے گی تاہم دیگر اوقات میں کرفیو نافذ رہے گا جبکہ مکہ 24 گھنٹے لاک ڈاؤن میں رہے گا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے جان لیوا نقصان کا انکشاف
رپورٹ کے مطابق 21 جون کو پوری ریاست میں کرفیو ختم کردیا جائے گا اور مکہ میں مسجد الحرام میں باجماعت نماز کی اجازت بھی دے دی جائے گی۔
اس وقت تک سماجی دوری کی ہدایات پر عمل درآمد جاری رہے گا اور 50 افراد سے زائد کے ایک جگہ اکٹھے ہونے پر پابندی عائد رہے گی۔
حکام نے وزارتوں، سرکاری ایجنسیوں اور نجی شعبے کی کمپنیوں میں اپنی دفتری سرگرمیوں کی بحالی کے لیے حاضری کی بھی اجازت دے دی۔
تاہم وہ تمام روزگاری شعبے جہاں سماجی دوری کے قواعد پر عمل درآمد مشکل ہے جیسے بیوٹی سیلونز، نائی کی دکانیں اور کھیل اور صحت کے کلبز، سینما وغیرہ بند رہیں گے۔اہم وہ تمام روزگاری شعبے جہاں سماجی دوری کے قواعد پر عمل درآمد مشکل ہے جیسے بیوٹی سیلونز، نائی کی دکانیں، کھیل اور صحت کے کلبز، سینما وغیرہ بند رہیں گے۔
سعودی عرب نے عمرہ زائرین اور بین الاقوامی فلائیٹس کو آئندہ نوٹس تک کے لیے بند ہی رکھا ہے۔
دبئی
دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے شہر دبئی میں آئندہ روز (عید کے چوتھے روز) سے کاروباری سرگرمیوں کو صبح 6 بجے سے رات 11 بجے تک کے لیے کھولنے کا اعلان کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد 55 لاکھ کے قریب پہنچ گئی
کاروباری سرگرمیاں دوبارہ کھولنے کا فیصلہ دبئی کے ولی عہد شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم نے بحران سے نمٹنے کے لیے قائم سپریم کمیٹی کے آن لائن اجلاس کی صدارت کرنے کے بعد کیا۔
دبئی میں آئندہ روز سے صبح 6 بجے سے رات 11 بجے تک نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
یہ فیصلہ کورونا وائرس کی صورتحال سے متعلق کمیٹی کے جامع تشخیصی رپورٹ اور متعدد صحت اور سماجی و معاشرتی نقطوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔