اس تحقیق میں ایسے فلو اور کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 7، سات مریضوں کے پھیپھڑوں کا موازنہ کیا گیا۔
اور نتائج سے 2 باتوں کی تصدیق ہوئی جن کے بارے میں پہلے اشارہ دیا جارہا تھا۔
پہلی تصدیق تو یہ ہوئی کہ کورونا وائرس خون کی شریانوں میں ایک ٹشو اینڈوتھیلیم پر حملہ آور ہوتا ہے جبکہ دوسری تصدیق یہ ہوئی کہ اس ٹشو کو پہنچنے والے نقصان کے باعث خون کے لوتھڑے بننے یا بلڈ کلاٹس کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جبکہ شریانیں صحیح طرح کام نہیں کرپاتیں۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کا خون آسانی سے گاڑھا ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے ادویات اور سیال پہنچانے کے لیے ٹیوبس کا استعمال مشکل ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کووڈ 19 کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
درحقیقت سائنسدانوں نے جب کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کا جائزہ مائیکرواسکوپ سے لیا تو انہوں نے ننھے ڈارک مائیکرو کلاٹس کو دریافت کیا۔
فلو سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں بھی اس طرح کے کلاٹس ہوتے ہیں مگر کووڈ 19 کے شکار افراد میں ان کی تعداد 9 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
خون کی شریانوں میں انفیکشن اور خون کے ننھے لوتھڑوں کے علاوہ سائنسدانوں نے کووڈ 19 کے مریضوں کی شریانوں میں ایک تیسرا مسئلہ بھی دریافت کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیماری کتنی سنگین تھی۔
انہوں نے دریافت کیا کہ بلڈ کلاٹس سے شریانوں کے بند ہونے کے نتیجے میں ان کا حجم انسانی بال سے بھی کم ہوجاتا ہے اور یہ شریانیں پھیپھڑوں میں گیس کے تبادلے کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔
جب بلڈ کلاٹس سے پھیپھڑے خون کی سپلائی کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں تو یہ ننھی شریانیں بقا کے لیے درمیان سے تقسیم ہوجاتی ہیں تاکہ متاثرہ حصوں تک خون پہنچ سکے۔
محققین نے بتایا کہ یہ جسم کا ہنگامی طریقہ ہوتا ہے جو خون کو پہنچانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
تحقیق میں خون کی شریانوں میں اس طرح کی تقسیم فلو کے مریضوں میں مقابلے میں دوگنا زیادہ دیکھی گئی۔
محققین کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے دوران خون کا مسئلہ زیادہ بڑھ جاتا ہے اور ممکنہ طور پر مدد کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
امریکا کے برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل سے تعلق رکھنے والے محقق اسٹیون مینٹزر نے بتایا کہ نتائج سے یہ وضاحت کرنے ممیں مدد ملتی ہے کہ ابتدائی علامات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کو اتنا نقصان کیوں پہنچتا ہے۔