صحت

برطانیہ میں کورونا ویکسین کی تیاری کیلئے سائنسدانوں کو عجیب مشکل کا سامنا

برطانیہ میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے کمی آئی ہے کہ ویکسین کی کامیابی کے امکانات گھٹ کر 50 فیصد رہ گئے۔

کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں مصروف برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کو عجیب مشکل کا سامنا ہے اور وہ ہے مریضوں کی تعداد بہت تیزی سے کمی آنا۔

درحقیقت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے کمی آرہی ہے کہ ویکسین کی کامیابی کے امکانات گھٹ کر 50 فیصد رہ گئے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ایڈریان ہل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کووڈ 19 کی ویکسین کی تیاری کے لیے اب جنگ وائرس کے غائب ہونے اور وقت کے خلاف ہے۔

ٹیلیگراف سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں وائرس کے شکار افراد کی تعداد میں بہت تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے تجرباتی ویکسین چاڈ آکسل این کوو 19 کو موثر طریقے سے آزمانا ممکن نہیں رہے گا۔

انہوں نے کہا 'اس وقت 50 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ ہم کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرسکیں گے'۔

ایڈم ہل کے ساتھی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر سر جان بیل نے بھی ٹائمز آف لندن سے بات کرتے ہوئے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا 'ہم اب لندن میں ٹرائل شروع کرنے کے حوالے سے پریقین نہیں'۔

برطانوی دارالحکومت میں نئے مریضوں میں کمی ملک کے دیگر حصوں سے بھی زیادہ تیزی سے آرہی ہے۔

اپریل میں اس ویکسین کی آزمائش انسانوں پر شروع کی گئی تھی تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہ وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں مگر اب سائنسدان فکرمند ہیں کہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوجائے گا کہ یہ ویکسین کیا واقعی لوگوں کو وائرس سے بچاسکتی ہے یا نہیں، کیونکہ برطانیہ میں نئے مریضوں کی بہت کم ہوگئئی ہے۔

جان بیل نے بتایا کہ اب سائنسدانوں کو ملک بھر میں وائرس کا 'تعاقب' کرنا ہوگا تاکہ ویکسین کی آزمائش کی کامیابی کا تعین کیا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا لندن کے مقابلے میں شمال مغربی برطانیہ میں جمعے کو کیسز کی تعداد میں 163 کا اضافہ ہوا اور اس خطے میں مصدقہ کیسز 24 ہزار 295 تک پہنچ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ برطانیہ بھر میں بیماری کا تعاقب کرسکتے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ کیا آپ عالمی سطح پر اس کا تعاقب کرسکیں گے'۔

آکسفورڈ کے سائنسدان ایک عالمی دوا ساز کمپنی آسترا زینیکا کے ساتھ مل کر ویکسین کی تیاری پر کام کررہے ہیں۔

سائنسدانوں کو توقع ہے کہ وہ انسانی آزمائش کو ستمبر تک مکمل کرکے ویکسین کو عام استعمال کے لیے متعارف کرادیں گے۔

23 اپریل سے اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع ہوئی اور ابتدائی مرحلے میں ڈیڑھ ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

رواں ماہ ہی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈریان ہل نے بتایا کہ ویکسین کی وسیع پیمانے پر تقسیم اور کم لاگست کو یقینی بنایا جائے گا اور یہی اس منصوبے کا آغاز سے مرکزی خیال ہے۔

انہوں نے کہا 'یہ کوئی مہنگی ویکسین نہیں ہوگی، یہ ایک سنگل ڈوز ویکسین ہوگی اور ہم عالمی سپلائی اور مختلف علاقوں میں اس کی تیاری کریں گے، یہ ہمیشہ سے ہمارا منصوبہ ہے'۔

اس تجرباتی ویکسین کی 6 بندروں پر ہونے والی ایک چھوٹی تحقیق میں ان جانوروں کو سنگل ڈوز دیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ ان میں 14 دن کے اندر وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بن گئیں اور ان سب میں 28 دن کے اندر حفاظتی اینٹی باڈیز بھی بن گئیں۔

جب ان بندروں کو کورونا وائرس سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی تو ویکسین نے پھیپھڑوں میں نقصان کی روک تھام کی اور وائرس کو اپنی نقول بنانے سے روک دیا، مگر ناک میں وہ اپنی نقول بناتا رہا۔

ایڈریان ہل کا کہنا تھا کہ جانوروں پر تجربات کے ڈیٹا بہت حوصلہ افزا ہیں اور اس سے ان کی ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا ہے کہ انسانوں پر اس کی آزمائش کے نتائج بھی مثبت ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ٹرائل کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد کو ویکسین کے ڈوز دیئے جاچکے ہیں جن میں سے نصف کو تجرباتی ویکسین دی گئی جبکہ باقی کنٹرول گروپ کا کام کررہے ہیں۔

جب ان سے ٹرائل میں پیشرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم لائیو کمنٹری نہیں کرسکتے، مگر آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر ٹرائل ابھی تک کام کررہا ہے اور یقیناً کررہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا'۔

کورونا وائرس کے خلاف تیز ترین ویکسین میں کتنی پیشرفت ہوچکی ہے؟

کووڈ 19 کے خلاف چین کی پہلی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ افزا قرار

امریکی کورونا ویکسین کا انسانی آزمائش کا پہلا مرحلہ کامیاب