طیارہ حادثہ: مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ہوا اس کا احتساب ہوگا، سربراہ پی آئی اے
قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو افسر(سی ای او) ارشد ملک نے کہا ہے کہ مسافر طیارے کے حادثے میں مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ثابت ہوا اس کا احتساب ہوگا۔
کراچی میں وفاقی وزیر ہوا بازی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر(سی ای او) ارشد ملک نے کہا کہ طیارہ حادثے میں جاں بحق افراد میں سے 21 کی میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 96جاں بحق مسافروں کے ڈی این اے کے لیے نمونے لے لیے گئے ہیں، جس کے لیے لاہور سے خصوصی ٹیم بلوا کر کراچی یونیورسٹی میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ ڈی این اے میچ کرکے شناخت کی جاسکے۔
ارشد ملک نے کہا کہ 100 فیصد لواحقین سے رابطہ ہوچکا ہے جیسے ہی ڈی این اے میچ کرنے کا عمل مکمل ہوگا ہم میتیں حوالے کرنے کا عمل شروع کردیں گے۔
مزید پڑھیں: طیارہ حادثے میں کوتاہی سامنے آئی تو احتساب کیلئے پیش ہوں گے، وزیرہوا بازی
سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ حکومت پاکستان نے حادثے کی تحقیقات کے لیے ایئرکرافٹ انویسٹی گیشن بورڈ کی ٹیم تشکیل دی ہے جس نے اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے، اب میرا تحقیقات سے صرف اتنا تعلق رہ جاتا ہے کہ جو معلومات، دستاویز مانگی جائیں وہ انہیں دینے کا پابند ہوں ورنہ میرا تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ثابت ہوا میں ضمانت کے ساتھ انہیں نہ صرف احتساب کے لیے پیش کروں گا بلکہ مکمل اور شفاف کارروائی کی جائے گی جو حکومت پاکستان کا ایک واضح مینڈیٹ ہے۔
ارشد ملک نے کہا کہ ہمارا ایمرجنسی رسپونس سینٹر اگلے 7 روز تک 24 گھنٹے کھلا رہے گا، ہماری ٹیم کا اگلا مرحلہ لواحقین کو معاوضے کی رقم ادا کرنا ہے لیکن پیسہ اس نقصان کا مداوا نہیں کرسکتا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جاں بحق افراد اور فرنٹ لائن پائلٹس کے ساتھ جو حادثہ ہوا اس کا کوئی مداوا نہیں ہیں لیکن قوانین کے تحت لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا۔
کوشش ہے 3 ماہ میں رپورٹ مکمل کی جائے، وزیر ہوا بازی
ان کے بعد وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور نے کہا کہ اس افسوسناک واقعے پر اہلیان پاکستان، اہلیان کراچی اور متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ افسوس کرتا ہوں، ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا معاوضہ دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے جو ان کے دکھ کو کم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقائق جلد از جلد سامنے لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
وفاقی وزیر ہوابازی نے کہا کہ حادثے کے فورا بعد مین اور سی ای او پی آئی اے کراچی پہنچے، اس میں رینجرز، آرمی، مقامی انتظامیہ نے امدادی کارروائیوں میں کردار ادا کیا، انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ میں نے میڈیا میں عوام اور رضاکاروں کا جذبہ دیکھا کہ آگ میں کود کر انسانی جانوں کو بچانے کی کوشش ہورہی تھی اسے سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: حادثے کا شکار طیارے میں سوار افراد کی تفصیلات
غلام سرور خان نے کہا کہ حادثے کے بعد فوری امدادی کارروائیوں پر اہلیان محلہ، فلاحی تنظیموں، رینجرز اور آرمی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ بہت بڑا اور افسوسناک ہے، رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، عید بھی قریب ہے لوگ اپنے پیاروں کو ملنے آرہے تھے جو صدمہ ہے اسے بیان کرنے کو میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی، متاثرہ خاندانوں کے لیے جو کچھ کرسکے وہ کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس حادثے کا کوئی معاوضہ نہیں لیکن یہ روایتی طور پر ہوتا ہے کہ 5 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر اسے فی کس 10 لاکھ روپے کیا گیا ہے اور انشورنس کی رقم کو کم از کم وقت میں متاثرہ خاندانوں کو دی جائے گی۔
غلام سرور نے کہا کہ طیارہ شہری آبادی پر گر کر تباہ ہوا جس کے نتیجے میں گلی کے دونوں اطراف کے گھر تباہ ہوئے تو انہیں معاوضہ دیا جائے گا یا مرمت کا کام اور تباہ ہونے والی املاک کا سروے کیا جائے گا، ہم پوری کوشش کریں گے انہیں معاوضہ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں 3 حادثے ہوچکے ہیں، گلگت کا حادثہ، فوکر طیارے اور چترال کے حادثات ہوئے اگر بروقت انکوائری نہ ہوسکے، رپورٹ نہ آئے اور پبلک نہ ہوسکے تو یہ اداروں اور حکومت وقت کی کمزوری ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس بات پر میں اپنی اور حکومت کی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ کم سے کم وقت میں اس کی انکوائری کی جائے گی اور کوشش ہوگی کہ 3 ماہ میں رپورٹ مکمل کی جائے، اس حوالے سے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی، ایئربس مینوفیکچرر کمپنی اپنی آزاد انکوائری کریں گے اور میں خود اس کی نگرانی کروں گا۔
غلام سرور خان نے کہا کہ چاہے کوئی بھی ذمہ دار ثابت ہو اس کا احتساب ہوگا، ہم پر بھی ذمہ داری آتی ہے تو عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: طیارہ حادثے کی تحقیقات کیلئے 4 رکنی ٹیم تشکیل
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رپورٹ آنے کے بعدغیر قانونی طور پر اونچی تعمیرات بنانے سے متعلق معلوم ہوگا اگر ایسا ہوا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی ایئرپورٹ کے قریب ماڈل کالونی میں پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 2 افراد محفوظ رہے جو ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
پی آئی اے کے انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈپارٹمنٹ نے حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے ایئربس اے-320 کے تکینکی معلومات سے متعلق سمری جاری کردی ہے جس کے مطابق یارے کو رواں ماہ 21 مارچ کو آخری مرتبہ چیک کیا گیا تھا اور تباہ ہونے والے طیارے نے حادثے سے ایک دن قبل اڑان بھری تھی اور مسقط میں پھنسے پاکستانیوں کو لاہور واپس لایا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی، دونوں انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی اور وقفے سے قبل ان کی مینٹیننس چیک کی گئی تھی۔