جہاز گرنے پر غم و غصہ کیسا؟
ایک لمحے میں سب کچھ فنا ہوگیا۔ اُمیدوں، منصوبوں اور خوابوں سے سرشار متعدد خوبصورت قیمتی جانوں کے چراغ گُل ہوگئے۔
کس لیے؟ کیا صرف اس لیے کہ ان خوبصورت قیمتی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو ذمہ داری جس کسی ایک شخص کو سونپی گئی تھی وہ اس نے پوری نہیں کی؟
اس لیے کہ کہیں کوئی شخص اس قدر نااہل، خود غرض اور لاپرواہ تھا کہ اس نے وہ تمام معاملات ٹھیک کرنا گوارہ نہ کیے جو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی پروازوں کو بحفاظت اتارنے اور رن وے سے چند سو میٹر دُور ایک لمحے میں گر کر تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ امیدوں، منصوبوں اور خوابوں سے سرشار ان لوگوں کو اس طرح تو نہیں مرنا چاہیے تھا۔ اس کا کہیں کوئی ذمہ دار تو ضرور ہے۔
کیا یہ سوال پوچھنے کا صحیح وقت ہے؟ بے شک، یہی وقت ہے ببانگِ دہل اعلان کرنے کا کہ اگر کہیں کسی شخص نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہوتا تو یہ لوگ لقمہ اجل نہ بنتے۔
قوم صدمے میں ہے۔ مگر ان کا خون بھی کھولنا چاہیے۔ غصے اور تڑپ کے ساتھ اس مجرمانہ غفلت پر خون کھولنا چاہیے جس کے باعث جمعے کے روز پی آئی اے کا طیارہ حادثے کا شکار بنا۔
ان سارے افراد پر خون کھولنا چاہیے جو قومی ایئرلائن پر سوار مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ذمہ دار تمام اداروں کی خرابی کے حصہ دار ہیں، ہمارا ان سب پر خون کھولنا چاہیے جو اس خرابی کو پالتے ہیں، سنگین تر بناتے ہیں اور اس خرابی کی بُو کو باہر نکلنے نہیں دیتے۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کرتوت کسی دن خوبصورت اور قیمتی جانوں کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں یا بن جائیں گے۔
فی الحال تو چہار سوں لال جھنڈیاں لہراتی نظر آ رہی ہیں۔ روشنیاں مدھم ہیں۔ سائرنوں کی آوازیں دھیمی ہوگئی ہیں۔ لوگوں کی چیخ و پکار کی شدت کم پڑ گئی ہے۔ یہ جو ہم لوگ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے، یہ روشنیاں، سائرن اور چیخ و پکار کی آوازیں ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کررہی ہیں۔
جب آپ کسی ادارے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور پھر اس میں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر پیشہ ورانہ افراد کو بھرتی کریں گے تو یہی نتیجہ نکلا گا جو ابھی نکل رہا ہے۔
انسانی وسائل کی بات کریں تو وہاں سمجھوتہ، نظام کو چلانے سے متعلق معیارات کی بات کریں تو وہاں سمجھوتہ، حفاظتی اقدامات کا تذکرہ کریں تو وہاں سمجھوتہ، ہمارے گرد سست رفتار لیکن یقینی بگاڑ کا جو عمل جاری ہے وہ دراصل رفتہ رفتہ سر پر ٹوٹنے والا ایک ناگزیر سانحہ ہے۔
سب کچھ تو ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ معیارات، توقعات اور حتمی نتائج۔ دہائیوں پرانے بگاڑ کے اوپر سڑتے گلتے نظام کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ یہ ایک ایسا بگاڑ ہے جو مجرمانہ غفلت کی آڑ لیتا ہے اور ذمہ داری سے پلو جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ فضائی حادثے میں لوگ مارے جاتے ہیں، ان کی زندگی رائیگاں جاتی ہیں، ان کی موت رائیگاں جاتی ہے اور جو زندہ رہ جاتے ہیں ان کو حادثے کے بعد شاید زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اسی لیے مُردوں کے کفن دفن اور غم منانے سے بھی پہلے اس بگاڑ کو متحرک دیکھنے کے لیے تیار رہیے۔ بگاڑ کو حفاظتی گھیرے میں لینے کے لیے نظام کے بازوؤں کو آگے بڑھتا دیکھنے کے لیے تیار رہیں۔ دیکھیے گا کس طرح دوسرے پر انگلی اٹھانے، ٹال مٹول کرنے اور متاثر کو مجرم قرار دینے کا ایک چکاچوند سلسلہ شروع ہوگا اور اس انسانی ساختہ آفت کو تقدیر کا فیصلہ مان لیا جائے گا، یوں دھیرے دھیرے جمعے کے روز پیش آنے والے فضائی حادثے کا صدمہ بھی ٹھنڈا پڑجائے گا۔
یہاں آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ غم و غصہ کیوں ہو بھلا؟ فضائی حادثے تو پوری دنیا میں پیش آتے ہیں اور اس میں لوگ مرتے بھی ہیں۔ یہ سچ ہے لیکن پورا سچ نہیں۔
دنیا میں حادثات کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب ہمارے ہاں نہیں ہوتا، اور اصل غصہ اسی بات پر ہے۔ حادثات کے بعد جس طرح ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے، اس طرح ہمارے ہاں نہیں ہوتا، اس بات پر غم و غصہ ہے۔ حادثے کے بعد جس طرح سبق حاصل کیا جاتا ہے اس طرح ہمارے ہاں سبق حاصل نہیں کیا جاتا، اس بات پر غم و غصہ ہے۔ حادثات کے بعد جس طرح نظام میں بہتری لانے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، اس طرح ہمارے ہاں نہیں لائی جاتیں اس بات پر غم و غصہ ہے۔