اردو کے مرگ کی کہانی اور فیس بک
ایک ایسا غیر متوقع واقعہ جس سے زبان کے بنیادی جزو یعنی رسم الخط کی حفاظت کیساتھ اس کی ترویج کا حیران کن اہتمام بھی ہوگیا
وہ دسمبر 2013ء کی ایک خوشگوار صبح تھی، جب ممتاز ادبی جریدے ’سیپ‘ کے مدیر، جناب نسیم درانی نے یہ پریشان کن پیش گوئی کی کہ اردو رسم الخط 4 سے 5 برس میں ختم ہوجائے گا۔
کچھ ایسے ہی اندیشوں کا اظہار اردو زبان کو ’سب رنگ‘ جیسے منفرد ڈائجسٹ کا تحفہ دینے والے شکیل عادل زادہ اور نثری نظم کے منفرد شاعر احسن سلیم بھی کرچکے تھے۔
تب یہ اندیشے بڑے حقیقی معلوم ہوتے تھے۔ اردو کو انگریزی حروف تہجی، یعنی ’رومن‘ میں لکھنے کا شہرہ تھا۔ ایس ایم ایس میں رومن لکھائی مقبول تھی۔ ہندوستان میں رومن میں اردو کتابوں کی اشاعت کی خبریں تواتر سے موصول ہورہی تھیں۔ اسی لیے جب کوئی ہندوستانی ادیب ادھر آتا، اور ہمیں اس کا انٹرویو کرنے کا موقع ملتا، تو اردو کے مستقبل اور رومن سے متعلق سوال ضرور کیا کرتے۔