پاکستان

چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی اپیل مسترد، سزا برقرار

لاہور ہائیکورٹ میں مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف اپیل کی وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کی جانب سے مخالفت کی گئی۔
|

لاہور ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کیس کے مجرم کو سنائی گئی 7 سال قید کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کردی چنانچہ اب مجرم اپنی سزا پوری کرے گا جبکہ عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کی ضمانت کا فیصلہ بھی غیر مؤثر ہوگیا۔

عدالت عالیہ میں جسٹس فاروق حیدر نے مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی، جس کی وفاقی حکومت اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے مخالفت کی گئی۔

سماعت کے دوران عدالت میں مجرم کی طرف سے رانا ندیم احمد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ نارویجن پولیس لائژن آفیسر رائے لینڈوت کی درخواست پر مجرم کو مقدمے میں بے بنیاد ملوث کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی سزا معطل، ضمانت منظور

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجرم پر کمسن بچوں کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز نارویجن شہری کو بھجوانے کا الزام بے بنیاد ہے۔

رانا محمد ندیم ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ناکافی شواہد کے باوجود درخواست گزار کو 7 برس قید کی سزا سنائی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مجرم 2017 سے جیل میں قید ہے، مجرم اپنی 7 سال میں سے 4 برس قید اپیل کے حتمی فیصلے سے پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے مجرم کو حقائق کے برعکس سزا سنائی اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا اطلاق مجرم پر نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم نے کسی بھی بچے کی فحش ویڈیو نہیں بنائی، ساتھ ہی استدعا کی کہ مجرم کو سنائی گئی قید کی سزا غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کی جائے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ چائلڈ پورنوگرافی کے ملزم کی اپیل کی دوبارہ سماعت کرے گی

تاہم وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مجرم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم ایک بین الاقوامی چائلڈ پورنو گرافی گینگ کا حصہ ہے، ٹرائل کورٹ نے حقائق کے عین مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں سزا سنائی۔

اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ مجرم سعادت کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کی جائے۔

دوسری جانب ایف آئی اے کے وکیل منعم بشیر چوہدری نے بھی مجرم کی اپیل کی مخالفت کی، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مجرم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے اپیل مسترد کردی گئی۔

خیال رہے کہ 26 اپریل 2018 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے سعادت امین کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) 2016 کی دفعہ 22 کے تحت 7 سال کی سزا سنائی تھی اور 12 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:چائلڈ پورنوگرافی کے ملزم کی رہائی کی شدید مخالفت کریں گے، اٹارنی جنرل

تاہم 14 مئی کو اس سزا کے خلاف اپیل پر لاہور ہائیکورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی گٹھ جوڑ کا حصے ہونے پر سزا پانے والے شخص کی سزا معطل کرتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا تھا، تاہم ملزم کو ریلیف دیے جانے کے خلاف سوشل میڈیا پر بھرپور احتجاج دیکھنے میں آیا تھا۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان نے بھی کہا تھا کہ بچوں کی فحش فلمیں بنانے والے ملزم سعادت امین کی رہائی کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔

بعدازاں ہائیکورٹ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ جج کی جانب سے اپیل کے تحریری حکم پر دستخط ہونا باقی ہیں لہٰذا اسے دوبارہ سماعت کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے اور جب تک دستخط نہ ہوں تو قانون کے تحت جج اپنے حکم میں ترمیم یا اسے واپس لے سکتے ہیں۔

عدلیہ میں موجود ذرائع نے کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا نوٹس لیا ہے اور اٹارنی جنرل خالد انور کو اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سیل نے 2017 میں نارویجین سفارتخانے کی شکایت پر سعادت امین کو گرفتار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بڑھتی ہوئی شکایات کے پیش نظر ایف آئی اے سائبر کرائم سینٹرز کی تعداد میں اضافہ

اس حوالے سے استغاثہ نے کہا تھا کہ مجرم پاکستان سے چلنے والے بین الاقوامی ریکٹ کا متحرک رکن تھا جو 10 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کو متوجہ کرکے ان کی فحش تصاویر/ویڈیوز کو مالی فائدے کی خاطر بیرون ملک بھیجتا تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مجرم کے قبضے سے چائلڈ پورنوگرافی کی 6 لاکھ 50 ہزار سے زائد تصاویر اور ویڈیوز کو برآمد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ سعادت امین کے بین الاقوامی چائلڈ پورنوگرافر، جس میں سویڈن میں جان لِنڈاسٹروم، اٹلی میں جیووانی بیٹوٹی، امریکا میں میکس ہنٹر، برطانیہ میں اینڈریو مووڈی اور مختار کے ساتھ رابطے تھے جبکہ ایجنسی کی جانب سے مجرم کے خلاف 11 گواہوں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔

عدالت عالیہ کے سامنے دائر درخواست میں مجرم کے وکیل رانا ندیم احمد نے اعتراض کیا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے کی گئی تحقیقات ناقص تھیں کیونکہ وہ ناروے میں مبینہ غیرملکی ایجنٹ کی گرفتاری یا اس سے تفتیش میں ناکام رہی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان کے موکل کی جانب سے بیرون ملک سے موصول کی گئی رقم چائلڈ پورنوگرافی کے عوض نہیں تھی۔

واضح رہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کے مقدمے میں 7 سال قید، 50 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

حکومت بلوچستان کا پبلک ٹرانسپورٹ بحال نہ کرنے کا فیصلہ

والٹ ڈزنی کے سابق ڈائریکٹر ٹک ٹاک کے سی ای او مقرر

کورونا وائرس پر تحقیقات اس کے قابو میں آنے کے بعد کی جانی چاہیے، چین