اگر کورونا بھی دنیا کو تبدیل نہیں کرسکا تو شاید کوئی نہیں کرسکے!


'پاکستان دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے۔'
جب اخبارات پڑھنا شروع کیے تو میرے ذہن اور ذخیرہ الفاظ میں اس جملے نے گھر کرلیا۔
مگر اس بار تو پوری دنیا دوراہے پر آن کھڑی ہے، اور میں یہاں صرف کورونا وائرس کی عالمی وبا کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ دراصل ہم مختلف بحرانوں کے چوراہے پر ہیں جو ہماری زمین کے لیے تباہی کا سامان بن سکتے ہیں۔ اب چونکہ ان بحرانوں کے ذمہ دار ہم خود انسان ہی ہیں اس لیے ان پر غور و فکر کرنا ہمارا فرض بن جاتا ہے۔
دیکھیے، دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس کے علاوہ دیگر خطرات جس بڑے پیمانے پر موجود ہیں وہ اتنے ہی زیادہ مہلک بھی ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں زمین کے ماحولیات کی جو بے مثل تیزی سے زہر آلود ہوتا جارہا ہے۔ برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے ہمارے سمندروں کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے اور ہزاروں میل تک پھیلی ساحلی زمینوں کے زیر آب آنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
چونکہ زرعی مٹی کیمیائی مادوں سے بھرچکی ہیں اس لیے ہمارے جسم زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے زہریلے ذرات کو جذب کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی ندیاں، چشمے اور جھیلیں زندگی کو باقی رکھنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ جانوروں، پرندوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں کی کئی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔ سی این این کے فرید ذکریہ کے مطابق گوشت کے شوقین امرا کی بھوک مٹانے کے لیے ہر سال قریب 80 ارب جانوروں کو مار دیا جاتا ہے۔
مرغیوں اور دیگر بدقسمت جانوروں کو اندھیری اور تنگ جگہوں پر قید رکھنے اور انہیں ہارمونز اور اینٹی باڈیز کھانے پر مجبور کرتے ہوئے ہم نہ صرف نقصاندہ کیمائی مادوں کو اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں بلکہ ان میں موجود مرض آور جراثیم کو دیگر اقسام کے جانوروں تک منتقل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جن سے پھر کورونا وائرس جیسے وائرس جنم لیتے ہیں۔
ایک دوسرا ہمارا پیدا کردہ اہم مسئلہ غیر منصفانہ اور ظالم عالمی اقتصادی نظام ہے جس کے باعث معاشرے کی تباہی و بربادی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ جیسا کہ غربا دیگر امراض کی طرح کورونا وائرس کے معاملے میں بھی سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں، لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ محروم طبقے میں اس نظام کے لیے نفرت کیوں بڑھتی جا رہی ہے، ایسا نظام جو انہیں غریب سے غریب تر اور ایک جھوٹی سی اقلیت کو پیسے کمانے میں مدد دیتا ہے۔
اس غیر منصفانہ تقسیم کی ایک مثال اس حقیقت سے واضح ہوجاتی ہے کہ بالا طبقے کا 0.1 فیصد حصہ 90 فیصد نچلے طبقے کے مقابلے میں 196 گنا زیادہ پیسے کماتا ہے۔ گارجین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث برطانیہ میں مرنے والے ایک لاکھ افراد میں سے 21.4 فیصد مرد کم آمدن والی ملازمتوں سے وابستہ تھے جبکہ 5.6 مرد سفید پوش ملازمتوں سے وابستہ تھے۔
اگر کورونا وائرس بھی یہ کام نہیں کرسکا تو کوئی بھی نہیں کرپائے گا۔