اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل ہیلتھ افیئر میں شائع ہوئے جس میں سماجی دوری کو یقینی بنانے والی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جتنے عرصے تک ان اقدامات پر عملدرآمد ہوتا ہے، کووڈ 19 کے روزانہ کے کیسز کی شرح میں اتنی کمی آتی ہے۔
کینٹکی یونیورسٹی، لوئی ویل یونیورسٹی اور جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں امریکا میں یکم مارچ سے 27 اہریل کے دوران مصدقہ کیسز کو دیکھا گیا اور خاکہ بنایا گیا کہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے جاتے تو یہ وائرس کس حد تک پھیل سکتا ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ سماجی دوری کی پالیسیوں کو اگر کم از کم 16 سے 20 دن تک برقرار رکھا جائے تو روزانہ کیسز کی شرح میں 9 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔
اگر ان پالیسیوں کا اطلاق 15 یا اس سے کم دن ہو تو بھی روزانہ کیسز کی شرح میں کمی آسکتی ہے۔
سماجی دوری کی ان پالسیوں میں گھروں تک محدود ہونے کے احکامات، اسکولوں کی بندش، بڑے ایونٹس پر پابندی اور جمز اور ہوٹلوں کو بند رکھنے کو دیکھا گیا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ جن مقامات پر سماجی دوری کے احکامات پر عمل نہیں ہوا وہاں وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سماجی دوری کے احکامات (گھروں تک محدود رہنے) پر عمل نہیں کیا جاتا ہے 27 اپریل تک کیسز کی تعداد 10 گنا زیادہ ہوسکتی تھی جبکہ اوپر درج کسی قسم کی پالیسی پر عمل نہ کرنے سے وائرس 35 گنا زیادہ پھیل سکتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا میں ٹھوس سماجی دوری کے اقدامات سے کووڈ 19 کے پھیلنے کی شرح میں کمی آئی۔
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب امریکا میں متعدد ریاستیں دوبارہ کھلنے کے عمل پر کام کررہی ہیں، پابندیوں کو نرم اور سماجی دوری کی گائیڈلائنز تیار کی جارہی ہیں، مگر لوگ اس پر کتنا عمل کرتے ہیں، وہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔