صحت

ماہرین کا لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی نفسیاتی مسائل کے سونامی کا انتباہ

ماہرین نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران متعدد افراد ذہنی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔

نفسیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کا سونامی آئے گا، کیوں کہ ممکنہ طور پر لاک ڈاؤن کے دوران بہت سارے لوگ ذہنی مسائل کا شکار بن رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ذہنی مسائل سے عمر رسیدہ افراد اور بچے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اسکولوں کی بندش اور عمر رسیدہ افراد کو تنہا رکھنے کی کوشش کے باعث وہ الجھن کا شکار بن رہے ہیں اور انہیں ہسپتالوں میں بھی اس وقت علاج کی سہولیات نہیں مل رہیں۔

ایک سروے سے معلوم ہوا کہ نفسیاتی ماہرین کی جانب معمول کے مطابق آنے والے مریضوں کے بجائے ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ذہنی مریض سنگین حالات کا شکار

رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کے صدر وینی برن کے مطابق کورونا وائرس کے ذہنی صحت پر منفی اثرات کو دیکھا گیا تھا مگر اب ایسے مریضوں کے مرض میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ذہنی مسائل کا شکار ہونے والے افراد کو طبی امداد ہی نہیں مل پا رہی جنہیں اس کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے ہی لاک ڈاؤن کے بعد ذہنی بیماریوں کا سونامی آنے کا اندیشہ ہے۔

برطانیہ بھر میں 1300 نفسیاتی ماہرین سے کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں ایمرجنسی میں آنے والے کیسز میں 43 فیصد اضافہ ہوا جب کہ معمول کے مطابق آنے والے کیسز میں حیران کن طور پر 45 فیصد کمی دیکھی گئی۔

ایک ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ذہنی مسائل میں مبتلا پرانے مریض جو کہ معمول کے مطابق چیک اپ کے لیے آتے تھے وہ سنگین مسائل کا شکار ہیں اور وہ مدد اور طبی امداد لینے سے خوف زدہ ہیں۔

ایک اور ماہر نفسیات کے مطابق کورونا وائرس نے براہ راست لوگوں کی ذہنی صحت پر اثرات مرتب کیے ہیں اور لوگ ذہنی مسائل کا شکار بن رہے ہیں، لاک ڈاؤن سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

رائل کالج آف سائیکاٹرسٹ میں نو عمرافراد کی نفسیات کی فیکلٹی کے سربراہ کے مطابق انہیں اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ بچے اور نو عمر افراد جس لاک ڈاؤن کے باعث ذہنی مسائل کا شکار ہیں وہ طبی امداد نہیں لے پا رہے۔

عمر رسیدہ افراد میں ذہنی مسائل کی ماہر ڈاکٹر امانڈا تھامپسل کے مطابق بزرگ افراد پہلے ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کم کرتے تھے اور لاک ڈاؤن میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور وہ ٹیکنالوجی کو استعمال نہ کرپانے اور اپنے معالج کے پاس نہ آ پانے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

واضح ترجیح

ذہنی صحت پر کام کرنے والی تنظیم ری تھنک مینٹل النیس نے بھی کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں میں ذہنی مسائل بڑھ جانے کی تصدیق کی۔

تنظیم کی جانب سے ایک ہزار افراد سے کیے گئے سروے میں زیادہ تر افراد نے یہی بتایا کہ وبائی مرض پھیلنے اور لاک ڈاؤن کے بعد ان کے ذہنی مسائل بڑھ گئے اور ماضی کی طرح معمول کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے اور خود کو پہلے کی طرح محفوظ بھی نہیں سمجھتے۔

تنظیم کی عہدیدارڈینیلا ہم کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا قومی ادارہ صحت اچھا کام کر رہا ہے مگر ذہنی صحت سے متعلق کام کرنا ترجیح ہونی چاہیے اور اس شعبے پر مزید سرمایہ کرکے مستقبل کے حالات سے نمٹا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار ہونے والے افراد کو صحت یاب ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

بھارت میں کورونا کے کیسز کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہوگئی

اٹلی میں 3 جون سے بین الاقوامی سفر کی اجازت

کورونا وائرس: 123 ویکسینز میں سے 7 کی انسانی آزمائش کا آغاز