ہائے کورونا، جس نے عید پر پاکستان آنے سے روک دیا!
سال 2014ء کی بات ہے، عید کا دن تھا، یہ برطانیہ میں میری پہلی عید تھی اور یقیناً یہاں موجود بہت سے دیگر لوگوں کی طرح گھر والوں اور خاندان کے بغیر پہلی عید بھی۔
پاکستان میں تو عام طور پر بہت عرصہ یہی معمول رہا کہ چاند رات بھرپور انداز سے گزارنے کے بعد صبح سویرے نیند، عید کی ایکسائٹمنٹ پر غالب آجاتی اور پھر عید کی نماز سے کچھ دیر پہلے نیند سے زبردستی ہِلا جُلا کر اٹھائے جانے کے بعد، تولیا کاندھے پر لٹکائے، غسل خانے کی طرف دھکیلا جاتا تاکہ فوری تیار ہوکر عید کی نماز کے لیے وقت پر پہنچا جاسکے۔
لیکن آج ایسا نہیں تھا، رات جلد سوجانے کے بعد صبح وقت سے کافی پہلے بیدار بھی تھا اور تیار ہوکر یونیورسٹی کی مسجد کی طرف رواں دواں بھی۔ اکیلے پن کے علاوہ اس کی وجہ یہ تھی کہ رات ہی یونیورسٹی کی اسلامک سوسائٹی کے ممبران نے مسجد سے قریب رہنے والے طلبہ سے درخواست کی تھی کہ وہ صبح کچھ جلدی آجائیں تاکہ عید کی نماز کا بھی انتظام کیا جاسکے اور پھر نماز کے بعد عید کی خوشی میں سوسائٹی کی جانب سے ناشتے کا اہتمام ہے سو اس کی تیاری میں بھی مدد ہوجائے۔
ایسی سوسائٹیاں یہاں ہر قابلِ ذکر یونیورسٹی میں موجود ہیں اور یونیورسٹی کی مرکزی اسٹوڈنٹ یونین سے منسلک ہوکر، طلبہ و طالبات کے لیے ان کی دلچسپی کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں۔
بہرحال، سوسائٹی ممبران کے کہنے پر صبح سویرے مجھ جیسے کئی رضاکار یہاں موجود تھے اور انتظامات میں مدد کررہے تھے۔ ناشتے میں حلوہ پوری کا انتظام کیا گیا تھا، جس پر ایشیائی طالب علموں کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی خوش نظر آرہے تھے، خاص کر یورپ سے تعلق رکھنے والے ایک اسٹوڈنٹ کی ایکسائٹمنٹ آج بھی یاد ہے جس نے پوری کو 'کرسپی کریکر' کہہ کر پکارا اور محفل میں کافی دیر قہقہے گونجتے رہے۔
گھر اور اپنوں سے دُور عید کے دن شاید اسی طرح خود کو مصروف رکھ کر عید منائی جاتی ہے یا کم از کم عید کے دن کے اچھے اور خوشگوار آغاز کی کوشش کی جاتی ہے۔
آگے چل کر پڑھائی مکمل اور برسرِ روزگار ہونے کے بعد یہاں برطانیہ میں جتنی بھی عیدیں گزری ہیں ان میں یہ بات واضح محسوس ہوئی کہ یہاں عید کا دن انفرادی حیثیت سے زیادہ، کمیونٹی کی سطح پر منایا جاتا ہے اور اجتماعیت کے حقیقی تصور کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مساجد اور پارکوں میں عید کی نماز کے بعد ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے، خاص کر مسلم اکثریتی علاقوں میں مقامی افراد یا مساجد انتظامیہ، بڑے پارکس میں اسٹالز، جھولوں اور مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہیں جن میں مسلمان آبادی کے ساتھ ساتھ دیگر غیر مسلم رہائشی بھی شریک ہوتے ہیں اور عید کے دن کو اچھی طرح مل جل کرمنایا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی کمیونٹی کے افراد سے تعلق مضبوط ہوتا ہے بلکہ آس پاس رہنے والی دیگر قومیتوں اور برادریوں کے افراد سے بھی خوشگوار تعلقات بنانے میں مدد ملتی ہے اور شاید اس طرح نئی نسل کو اپنے کلچر اور روایات سے بھی جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بہرحال اس برس تو ایسا کچھ بھی نہیں، اور وجہ یقیناً وہی ہے جس نے تمام دنیا کے نظام کو تلپٹ کر رکھا ہے۔ کورونا وائرس اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں یہاں برطانیہ میں بھی ہر قسم کے اجتماعات کے انعقاد پر پابندی ہے۔ اسی وجہ سے نہ رمضان میں تراویح منعقد ہوئی، نہ ہی عید پر نمازِ عید کے اجتماعات ہوسکے اور نہ ہی اجتماعی طور پر کسی فیسٹیول کا انعقاد ممکن ہوسکا، ہاں انفرادی طور پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو پارکس کا رخ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ یوں دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی عید کے رنگ قدرے پھیکے اور کورونا سے متاثر نظر آئے۔
عید ہی کیا اس بار کا رمضان بھی حقیقتاً پہلے کی نسبت بہت مختلف تھا اور یقیناً ہم میں سے ہر ایک نے اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ بھی کیا ہے۔ تراویح ہی نہیں معمول کی عبادات کے لیے بھی مساجد بند رہیں، لہٰذا ماہِ رمضان کے اجتماعی تصور کا وہ مزہ حاصل نہ ہوسکا جو اس مہینے کا خاصا ہے۔
دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح یہاں برطانیہ میں بھی معمول ہے کہ رمضان کے دوران تقریباً ہر بڑی مسجد اور اسلامک سینٹر میں روزانہ افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ریجنٹس پارک سے متصل، لندن سینٹرل مسجد میں منعقد ہونے والے افطار کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں، سو ہر رمضان یہ کوشش رہتی کہ کم از کم ایک دن اس کشادہ، خوبصورت اور منظم مسجد میں گزارا جائے اور نہ صرف یہاں کے افطار بلکہ اس مسجد کے 'ماحول' سے بھی محظوظ ہوا جائے۔ بچوں کی اٹھکیلیاں اور شرارتیں، فیملیوں کی جانب سے جابجا بچھائے گئے دسترخوان، انفرادی عبادات میں مصروف افراد اور حلقوں کی صورت میں درس و تدریس، یہ سب مناظر مل کر رمضان کو اور بھی خوبصورت بنادیتے ہیں لیکن افسوس، اس رمضان میں ایسے مناظر سے محرومی ہی رہی۔
رمضان، خاص کر رمضان کا آخری عشرہ اور پھر چاند رات، یہ تمام عرصہ عید کی تیاریوں کے حوالے سے کافی اہم اور گہماگہمی سے بھرپور رہتا ہے۔ لندن سمیت دیگر شہروں کے وہ علاقے جہاں ایشیائی باشندوں یا عرفِ عام میں 'دیسیوں' کی بہتات ہے وہ ان دنوں میں رنگ برنگے اسٹالوں سے بھر جاتے ہیں جہاں لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
لندن میں الفورڈ، ساؤتھ ہال، گرین اسٹریٹ اور وائٹ چیپل کے علاقے خاص طور پر انار کلی یا بانو بازار کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ کپڑے، جوتے، مہندی، میک اپ اور عید کی مناسبت سے دیگر اشیا کی خریداری کرنے والوں نے عید سے پہلے ہی عید کا سماں باندھا ہوتا ہے۔ لیکن وائے قسمت کہ اس بار ایسا کچھ بھی ممکن نہ تھا۔
راقم کی یہاں برطانیہ میں چونکہ اردو میڈیا سے وابستگی ہے اس لیے رمضان میں ڈیوٹی ٹائمنگ اور سرگرمیاں کافی بڑھ جاتی ہیں۔ رمضان کے معمولات اور پھر سخت ڈیوٹی کے باعث گزشتہ 3 برس سے معمول رہا ہے کہ عید پر پاکستان جایا جائے اور 'اصل' عید انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ خوب تھکن اتارنے کا بھی موقع مل جائے۔
عموماً عید سے ایک آدھ دن پہلے ہی پاکستان پہنچتا ہوں، سو آخری روزہ بھی پاکستان میں رکھنا نصیب ہوجاتا ہے، اور پھر عید کی تیاریوں میں بھی شرکت ہوجاتی ہے لیکن اس بار تو کورونا نے جہاں بڑے بڑے ممالک کی ہر معاملے میں پلاننگ، امیدیں اور خوشیاں تہس نہس کرکے رکھ دیں ہیں وہیں ہمارے عید کے پروگرام کو بھی بھرپور نشانہ بنایا۔
تاحال نہ ہی بیرونِ ملک سفر کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی فلائٹیں دستیاب لہٰذا اس بار پاکستان جانا اور وہاں جاکر عید کرنا ممکن نہ ہوپایا۔ سو عید کا دن پاکستان میں موجود فیملی اور دوستوں سے فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی رابطے کرنے اور گذشتہ عیدوں کو یاد کرنے میں گزرا۔
کچھ بچپن کی وہ عیدیں جب عید کی نماز پڑھنے کے بعد سب سے بڑا مشن عیدی کے حصول کے لیے گھر کے اپنے سے بڑے ہر شخص کے پاس جانا ہوتا اور پھر اس جمع شدہ عیدی کو، شام ہونے سے پہلے پہلے 'ٹھکانے' لگانا ہوتا تھا۔
عید کے دن چونکہ زیادہ روک ٹوک بھی نہ کی جاتی تھی اس لیے عیدی کے ذریعے ہر اس کام کو انجام دینا ضروری ٹھہرتا جس سے عام حالات میں منع کیا جاتا تھا۔
ویڈیو گیمز کی دکان کا طواف کرنا اور عیدی کا بڑا حصہ یہاں نذر کردینا، بندر وغیرہ کا تماشا دیکھنا اور گھنٹوں دیکھتے رہنا، منہ میں میٹھا پان رکھ کر نقلی 'اسلحے' کی بھرپور خریداری اور پھر اس کے بل پر آس پاس کی گلیوں کے 'مورچے' فتح کرنا۔ کزنز یا دوستوں کے ساتھ میلہ دیکھنے جانا اور پھر گول گپے، قتلمہ، چاٹ، پٹھورے وغیرہ سمیت ہر اس ریڑھی یا اسٹال سے اشیا لے کر کھانا لازمی ٹھہرتا جہاں مکھیوں کی بہتات ہو۔۔۔ اگرچہ گھر میں بھی عید کی مناسبت سے خصوصی پکوان بنتے لیکن حقیقتاً 'گھر کی مرغی دال برابر' والا حساب ہوتا۔ کیا کمال کا بچپن تھا اور کیا ہی کمال کی عیدیں۔
کچھ بڑے ہوئے اور عیدی جمع کرنے سے عیدی دینے کا مرحلہ آیا تو عید کے معمولات بھی تبدیل ہوگئے لیکن بہرحال جوش و خروش اسی طرح قائم رہا۔
عید کی نماز کے بعد گراؤنڈ میں کافی دیر تک جاننے والوں اور اکثر نہ جاننے والوں سے بھی عید ملنا۔ گھر واپسی پر گھر میں موجود بچوں کے لیے ایسے بڑے بڑے غبارے لے کر جانا جن پر عید مبارک لکھا ہوتا، پھر گھر جاکر سویوں اور ناشتے سے بھرپور انصاف کرنا، اس کے بعد ملنے جلنے کا سلسلہ شروع ہوتا جو رات گئے تک جاری رہتا۔ کبھی گھر مہمان آرہے ہیں اور کبھی ہم کسی کو شرفِ میزبانی بخش رہے ہیں۔ یوں پورا دن بلکہ اگلے 2 دن بھی ایسی ہی سرگرمیوں اور بھرپور مصروفیت کے ساتھ گزرتے۔ نہ جانے بعض لوگ عید کا دن سو سو کر گزارنے کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔
بہرحال یہاں، اس بار عید کا دن تقریباً ان ہی یادوں میں گزرا۔ ایسا نہیں کہ برطانیہ میں لاک ڈاؤن بہت سخت ہے اور کسی صورت بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اب تو آہستہ آہستہ معمولاتِ زندگی بحال ہونے لگے ہیں۔ محدود لیکن محتاط انداز میں سماجی میل جول کی سرگرمیاں بھی شروع ہورہی ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عید پر اڑوس پڑوس کے افراد سے ملاقات بھی ہوگئی، کچھ کچھ عید کے کھانوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن بہرحال جس انداز سے ہمیں عید کی تیاری کرنے اور اسے منانے کا شوق ہے اور پھر جس جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے کی عادت ہے، وہ اس بار قطعی ممکن نہ ہوپایا۔
یقیناً آپ میں سے بھی بہت سارے خواتین اور حضرات میری طرح اس عید پر جس بات کو سب سے زیادہ مِس کررہے ہیں وہ 'عید ملنا' ہوگی، اپنوں اور اکثر غیروں سے بھی 3 بار گلے مل کر عید مبارک کہنے کا لُطف عید کے مزے کو دوبالا کردیتا تھا لیکن افسوس، کورونا کے باعث عید مبارک کہنے کی یہ روایت اس برس صرف خواب ہی رہے گی۔
لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔