اسی طرح مسلز کے حجم میں کمی کے مسائل سے چلنے پھرنے میں مسائل ہوسکتے ہیں اور نفسیاتی امراض کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
طبی عملے کو مریضوں کے طویل المعیاد علاج کی ضرورت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ طبی حکام نے ان مسائل کو دائمی امراض قرار دیا ہے، جس سے چینی شہریوں کو طبی اخراجات میڈیکل انشورنس سے پورا کرنے کا موقع مل سکے گا۔
کمیشن کا کہنا تھا 'ہسپتالوں سے کووڈ 19 کے مریضوں کی بڑی تعداد ڈسچارج ہوچکی ہے اور اب بحالی نو کے عمل کو ترجیح دی جانی چاہیے'۔
اگرچہ بیشتر کووڈ 19 مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے اور ان کی صحت پر طویل المعیاد اثرات کا امکان بہت کم ہے، مگر مختلف تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ زیادہ شدید علامات والے افراد کے اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انہیں مکمل ریکوری کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
چین کے ہیلتھ کمیشن کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں دل کے امراض جیسے انجائنا اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی وغیرہ کا خطرہ ہوسکتا ہے جو براہ راست وائرس کا نتیجہ یا بہت زیادہ وقت تک بستر تک محدود ہونے کے باعث ہوتا ہے۔
مگر اس گائیڈلائن میں گردوں کے نقصان کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ طویل المعیاد بنیادوں پر کورونا وائرس کے مریضوں کو گردوں کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
رواں ہفتے جرنل کڈنی انٹرنیشنل میں شائ ایک تحقیق میں ساڑھے 5 ہزار کے قریب کووڈ 19 کے مریضں کا جائزہ لیا گیا۔
نیویارک کے نارتھ ویل ہیلتھ نامی ادارے کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک تہائی مریضوں میں گردوں کے کام چھوڑ دینے یا کڈننی فیلیئر کا مسئلہ موجود تھا۔
محققین نے رائٹرز کو بتایا کہ اس مسئلے کا سامنا کرنے والے 14 فیصد سے زائد مریضوں کو ڈائیلاسز کی ضرورت پڑی۔
ایسی بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس جلد، مرکزی اعصابی نظام اور خون کی شریانوں پر حملہ کرتا ہے جس سے خون کے لوتھڑے بننے اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
بچوں میں اس وائرس کے نتیجے میں کاواساکی جیسے مرض کا خطرہ بڑھ رہا ہے مگر یہ سب امراض چینی سرکاری گائیڈ لائنز میں فی الحال شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
طویل المعیاد اثرات ایک رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جو وینٹی لیٹر پر ہوتے ہیں انہیں طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور نفسیاتی نقصان کا سامنا ہوتا ہے اور اگر سانس لینے میں مشکل کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس کا عارضہ ہو، تو پھیپھڑوں کے ٹشوز پر خراشیں بھی پڑسکتی ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے پروفیسر ڈاکٹر شو یوآن شیاؤ نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ کووڈ 19 کے بیشتر معتدل مریضوں میں صحتیابی کے بعد طویل المعیاد اثرات کا امکان نہیں ہوتا، مگر زیادہ بیمار ہونے والے افراد کا مستقبل کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوتا۔
مارچ کے وسط میں ہاکنگ کانگ میں طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑے کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کو تیز چلنے پر سانس پھولنے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔
ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ ہاسپٹل اتھارٹی نے یہ نتیجہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ابتدائی مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا۔
ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ 12 میں سے 2 سے تین مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش میں تبدیلیاں آئیں۔
ہسپتال کے انفیکشیز ڈیزیز سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اوئن تسانگ تک ین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا 'ان افراد کا سانس کچھ تیز چلنے پر پھول جاتا ہے، جبکہ مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے'۔