خونخوار 'مزدور' سے بچنا ہوگا


پابندیوں میں نرمی کے بعد لاک ڈاؤں سے متعلق مباحثے نے مزید شدت پکڑ لی ہے۔ افسران، دکاندار اور میڈیا، جو بے بنیاد اندازے بتانے کے الزامات کے ساتھ شدید تنقید کا نشانہ بنتا ہے، سب کے سب بازاروں میں بغیر ماسک پہنے لوگوں کا رش دیکھ کر ہکے بکے رہ گئے ہیں۔
اس صورتحال کے بعد وہی گھسی پٹی پرانی وضاحت پیش کردی گئی کہ 'ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگوں کا ردِعمل ایسا ہوگا'۔ جبکہ خود کو تسلیاں دینے میں مصروف افسران اور دیگر ایسے حضرات جو بظاہر خود کو اس کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں وہ اس تردیدی بیان میں اخلاقی تقاضوں کا پاس رکھتے ہوئے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ 'ہم ایسی صورت میں کچھ نہیں کرسکتے جب لوگ خود اس قدر بڑی تعداد میں قوانین و ضوابط کو دھجیاں اڑا رہے ہیں'۔
یہ رش زدہ اور پُررونق بازار بتارہے ہیں کہ لوگ اس وبا سے پہلے جس طرح زندگی گزارنے کے عادی تھے، وہ اب بھی ویسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
اب ایک بات تو بالکل واضح ہوچکی کہ اس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں اور ان کی باتوں پر تو بالکل بھی کان نہیں دھرا جائے گا جو اس عالمی وبا سے لڑنے میں مصروف افراد کی خاطر اور ان افراد سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کفایت شعاری کا مشورہ دے رہے ہیں جو اس بیماری کی وجہ سے اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں۔
اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم طویل عرصے سے دہشتگردوں اور تعصب سے بھرے افراد سے جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری زندگی گزارنے کی عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، تو بھلا ایک وبا یا بیماری ان عادتوں کو کیسے تبدیل کرسکتی ہے؟
ہاں، اگر لوگوں کو اس کام سے روکنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے مکمل پابندی۔
عالمی وبا کے باعث ہماری طرزِ زندگی کو نہ چھیننے کا مطالبہ سب سے زیادہ دکاندار نے کیا ہے اور یہ کوئی اتفاق کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ ان کے لیے اور ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ دکاندار ان چند افراد میں شامل ہے جنہوں نے نئی قوتوں کو ان کی آوازیں دبانے کا موقع نہیں دیا۔ وہ ایک ایسی دنیا کا نمائندہ ہے جو اس دنیا سے دُور پڑتی ہے جو ہمارے گرد بدلتی حقیقتوں کی وجہ سے تقریباً مِٹ چکی ہے۔
دکاندار بازاروں کو کھولنے کے حق میں ہیں۔ تاجروں نے دھمکی دی کہ وہ کاروبار کی بندش سے متعلق حکومتی احکامات کی ہر صورت خلاف ورزی کریں گے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ جب سے ملک کے اندر بے دلی کے ساتھ تذبذب بھرا لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے تب سے ہی یہ دھمکیاں اخبارات اور ٹی وی کی زینت بن رہی ہیں۔
حال ہی میں آپ نے معتبر دکھنے والے دکانداروں کے نمائندوں کو بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں کے پاس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ پسینے سے تر پیشانیوں کے ساتھ وہ شدید دباؤ کے شکار حکام کے سامنے پیش ہوئے اور کامیابی سے ان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانا کتنا ضروری ہوچکا ہے۔ یہ ہمارے (واحد) نمائندے بھی ہیں۔ انہوں نے اس طرزِ زندگی کو بحال کرنے میں مدد فراہم کی جس کے تحفظ کے لیے ہم ایک وقت سے لڑتے اور جھگڑتے چلے آ رہے ہیں۔