ایک بے ترتیب مقدمے کی رُوداد

جیل میں آتے ہی اس نے انسپکٹر صاحب کو بتایا تھا کہ کچھ دنوں سے اسے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے اس کی زندگی ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے، وہ ذہن پر زور دے کر سوچتا ہے لیکن کوئی بھی منظر مکمل نہیں ہوتا۔
61 سال گویا دانے دانے ہوگئے ہوں، گزشتہ 2 سال سے اسے یہ مسئلہ درپیش ہے جس کی وجہ سے وہ بھول جاتا ہے کہ 5 منٹ پہلے کیا ہوا تھا اور بعض اوقات اسے بچپن کی کوئی بات یاد آجاتی ہے۔ اسے اپنی یادداشت پر بالکل بھی بھروسہ نہیں تھا، وہ وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ کون سی بات درست ہے اور کون سی غلط۔
ٹکڑا نمبر ایک
اوپر بیان کیا گیا کردار جو ایک بوڑھا مالدار شخص ہے، 10 روز سے جیل میں قید ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے پڑوسی ہارون کمال کے گھر داخل ہوکر ان کے چوکیدار کو قتل کردیا ہے۔ وہ جیل کی کوٹھڑی کی چھت کو گھورتا رہتا تھا، سلاخوں کے پار موجود کانسٹیبل دن میں 4 دفعہ ایک جملہ ضرور دُہراتا ہے۔
’اس عمر میں قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی، جب کہ آدمی کے پاس اتنی دولت بھی ہو۔‘
ٹکڑا نمبر دو
یہ ایک کمرہ عدالت ہے اور بوڑھے حمید احمد کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ اس کا پڑوسی عدالت میں موجود تھا، ساتھ چوکیدار کی بیوی بیٹھی تھی جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھ لیتی۔ جج نے ملزم سے سوال کیا کہ وہ 3 اپریل کو ہونے والے واقعے کی ساری صورتحال بیان کرے۔
بیان نمبر 1
’میں اس دن اپنے گھر پر موجود تھا، میں عموماً اپنے گھر پر ہی رہتا ہوں، مجھے ریٹائرڈ ہوئے ایک سال ہوگیا ہے، بیوی فوت ہوگئی ہے اور میرا بیٹا انگلینڈ میں رہتا ہے، یا شاید وہ کینیڈا میں رہتا ہے، نہیں آسٹریلیا میں رہتا ہے۔ دراصل میری یادداشت اب بالکل کام نہیں کرتی اس لیے میں گھر ہی میں رہتا ہوں۔ معزز جج نے ڈاکٹروں کی رپورٹس بھی ملاحظہ کی ہوں گی، جو میرے ڈیمنشیا کے مرض کے متعلق ہیں، اس دن میں گھر کی پہلی منزل پر موجود کمرے میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ مجھے چیخ کی آواز سنائی دی۔‘
بیان نمبر 2
’معذرت میں بھول گیا تھا، چیخ کی آواز 5، 6 دن پہلے سنائی دی تھی، جس دن کی آپ بات کر رہے ہیں اس دن مجھے چیخ سنائی نہیں دی تھی بلکہ اس رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو میں چھت پر چلا گیا۔ ایسا عموماً میرے ساتھ ہوتا ہے، رات کھانا زیادہ کھالوں تو ہضم نہیں ہوتا اور نیند نہیں آتی، سینہ جلتا رہتا ہے، تو میں کہہ رہا تھا کہ میں چھت پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ جہانگیر صاحب جو میرے پڑوسی ہیں، ان کے گھر 5، 6 دن پہلے کسی عورت کے چیخنے کی آوازیں آئی تھیں۔ مجھے بہت سی باتیں بھول جاتی ہیں اور کبھی کبھار بہت پرانی باتیں یاد آجاتی ہیں، تو چھت پر چہل قدمی کرتے مجھے 5 دن پہلے کا واقعہ یاد آگیا۔‘
بیان نمبر 3
’میں معزز جج کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بتایا کہ میرے پڑوسی کا نام جہانگیر نہیں ہارون ہے، بالکل ان کا نام ہارون ہے اور یہ اکثر اپنی بیوی سے لڑتے رہتے ہیں، میں اپنی چھت سے دیکھتا رہتا ہوں۔ اس رات جب مجھے خیال آیا کہ ایک عورت کچھ روز پہلے بے تحاشا چیخ رہی تھی تو میں بہت بے چین ہوگیا، میں نے کہا مجھے خود اس بارے میں تفتیش کرنی چاہیے سو میں صحن کی دیوار پر سیڑھی رکھ کر ان کے گھر اتر گیا۔ جیسے ہی صحن میں اُترا تو ان کا کتا بھونکنے لگا اور مجھے ٹانگ پر کاٹ لیا جس کی وجہ سے مجھے 14 ٹیکے لگے تھے اور میں کئی دن سو نہ سکا۔
بیان نمبر 4
بیان نمبر 5
بیان نمبر 6
گمشدہ شمائلہ کے شوہر ہارون صاحب کا بیان
ہارون صاحب کے مالی کا بیان
چوکیدار کی بیوی کا بیان
معزز جج کا فیصلہ
کہانی سے جڑا ایک اور ٹکڑا
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔