مشیر تجارت نے چینی بحران پر قائم تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرادیا
اسلام آباد/کراچی: وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے چینی بحران پر تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوکر چینی مشاورتی بورڈ کے اس کی برآمدات کے حوالے سے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیشن نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی طلب کیا تھا تاہم انہوں نے اس میں پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ صوبہ پنجاب کا ہے۔
عبدالرزاق داؤد چینی اور گندم کی قیمتوں میں اچانک اضافے سے متعلق تحقیقاتی کمیشن میں پیش ہونے والی پانچویں بڑی شخصیت ہیں، اس کمیشن کو 2019 کے شینی اور گندم بحران پر فارنزک آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
انہوں نے ڈان کو تصدیق کی کہ انہوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تاہم اس حوالے سے تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ معاملے پر میڈیا سے گفتگو نہیں کریں گے۔
تاہم پیشی پر اٹھائے گئے چند امور میں سے کچھ بتانے کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن آج واضح کردیں گے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب چینی انکوائری کمیشن میں پیش، حکومت پنجاب کے کردار پر بیان ریکارڈ
ان کا کہنا تھا کہ ’میں 15 مئی کو بیان جاری کروں گا تاکہ اپنی پوزیشن کلیئر کرسکوں‘۔
عبدالرزاق داؤن کا کمیشن کے آگے بیان نہایت اہم ہے کیونکہ چینی اور گندم بحران پر پہلی رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی وزیر اعظم نے ان سے وزارت صنعت و پیداوار اور خسرو بختیار سے وزارت غذائی تحفظ لے لی تھی۔
خسرو بختیار کو بعد ازاں وزارت معاشی امور کا قلمدان دیا گیا تھا۔
عبدالرزاق داؤد نے چینی مشاورتی بورڈ کے چیئرمین کے حیثیت سے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) میں چینی کی برآمدات کی اجازت کی پیشکش کی تھی۔
ای سی سی نے اکتوبر اور دسمبر 2018 میں 11 لاکھ ٹن چینی کی برآمدات کی اجازت دی تھی اور پورے کوٹے میں سے 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔
2017-18 میں چینی کی اوسط ریٹیل قیمت 53.75 روپے تھی جبکہ 2016-17 میں یہ 61.43 روپے، 2015-16 میں 64.03 روپے اور 2014-15 میں 58.91 روپے تھی۔
دسمبر 2019 کے اختتام پر جب چینی کا بحران عروج پر تھا تو چینی کی قیمت تقریبا روپے 80 فی کلو تک بڑھ گئی تھی۔
ریٹیل کی سطح پر چینی کی قیمت میں ایک روپے کے اضافے کا مطلب ہے کہ صارفین کی جانب سے کل 5 ارب 10 کروڑ روپے کے اخراجات کیے گئے۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کی سالانہ کھپت 50 لاکھ سے 60 لاکھ ٹن ہے۔
اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے اس بحران کے بارے میں جاری کی گئی انکوائری رپورٹ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین اور پارٹی کے رہنماؤں اور اتحادی جماعتوں کے قریبی رشتہ داروں سمیت کچھ نامور شخصیات کے نام سامنے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسد عمر چینی انکوائری کمیشن میں پیش، کابینہ، ای سی سی کے فیصلوں پر بیان ریکارڈ
تاہم حکومت نے اپریل کے پہلے ہفتے میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا اور اسے 25 اپریل کو فرانزک آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا۔
بعد ازاں اس ڈیڈ لائن کو 16 مئی تک بڑھا دیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا مؤقف
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے مراد علی شاہ سے دو مرتبہ پینل کے سامنے پیش ہونے کی درخواست کی ہے۔
رد عمل میں سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے ایف آئی اے کے سربراہ کو خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی کی تحقیقات سے واضح ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے ذمہ داروں اور غلطی کا مرکز صرف اور صرف پنجاب تک محدود تھا۔
خط میں کہا گیا کہ ‘اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ حکومت پنجاب کے بنائے گئے دلدل میں حکومت سندھ کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے اور سال 2017-2018 کے بارے میں ایک بریفنگ فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، 2017-2018 کے دوران کم از کم صوبہ سندھ میں چینی کی قیمت کم ہوئی تھی‘۔
اس میں کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں سندھ سے کسی کو بھی غیر قانونی طور پر چینی کی قیمت میں اضافے میں کردار ادا کرنے یا ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے شامل نہیں کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ‘انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ ڈی جی ایف آئی اے کے 16 مارچ کو لکھے گئے خط کے مندرجات سے یہ واضح ہے کہ شرائط کے پیراگراف 3 (کے) میں آنے والے تمام معاملات کی انکوائری کی گئی ہے اور ان کے نتائج بھی دیئے گئے ہیں اور جس چیز کی تجویز دی گئی ہے وہ کمیٹی کی رپورٹ میں شناخت کی گئی چند ملوں کا فرانزک آڈٹ اور اسٹاک لینے کے ذرائع کی تصدیق کا عمل ہے۔
صوبائی ایڈووکیٹ جنرل نے خط میں مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہنا 16 مارچ کو وزارت داخلہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں طے کیے گئے قواعد سے مناسبت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے ایف آئی اے کے سربراہ 11 اور 13 مئی کو جاری کیے گئے اپنے خطوط فوری طور پر واپس لیں۔