امریکی کمیشن کا بھارت میں مسلم سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تحفظات کا اظہار
امریکی کمشن برائے آزادی مذاہب (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمان سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت جب بھارت کو قیدیوں کی رہائی پر غور کرنا چاہے وہ بنیادی حقوق کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘۔
مزید پڑھیں: اب احساس ہونے لگا ہے کہ’مسلمان‘ ہوکر بھارت میں نہیں رہ سکتا، نصیرالدین شاہ
یو ایس سی آئی آر ایف نے خصوصی طور پر حاملہ سماجی رکن صفورا زرگر کا نام واضح کیا جنہیں نئی دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے وقت گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ ان پر انسداد دہشت گردی کے سخت قانون 'غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 2019' کے تحت چارج کیا گیا۔
27 اپریل کو صفورا زرگر کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گرفتاری کے وقت وہ 3 ماہ کی حاملہ تھیں۔
صفورا زرگر دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ایک ریسرچ فیلو اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) کی میڈیا کوآرڈینیٹر تھی انہوں نے بھارتی حکومت کے خلاف گزشتہ برس دسمبر میں منظور کیے گئے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف بھرپور احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2019: بھارت میں اقلیتوں کیلئے خوف و تشدد کی علامت کا ایک اور برس
امریکی ادارے کی جانب سے دوسرے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ 2020 کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ میں کمیشن نے سفارش کی کہ 2019 کے دوران بھارت کو اس کے ’منظم انداز میں مذہبی آزادی کی بے حد خلاف ورزیوں‘ پر ’تشویش زدہ ملک قرار دے دیا جائے۔
امریکی ایجنسی نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف یہ منفی رجحان 2020 تک جاری ہیں۔
رپورٹ میں خاص طور پر بھارت کے نئے شہریت کے قانون کے نفاذ پر تنقید کی گئی۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اور اس سے یہ تشویش مزید بڑھ گئی ہے کہ مودی کی انتظامیہ ہندوستان کی سیکولر روایات کو پامال کررہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا نے عالمی مذاہب کو حاصل مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ 2018 جاری کی تھی جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمان اور ہندوؤں کی نچلی ذات 'دلت' کو دھمکیاں دیں، ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: گائے لے جانے والے 2 مسلمان تشدد کے بعد قتل
مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ گائے کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر مسلمانوں اور دلت پر حملے کیے گئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2014 میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد میسح برادری کے پیروکاروں کو بھی تبدیلی مذہب کے لیے زور دیا گیا۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس حقیقت کے باوجود کہ بھارتی اعداد وشمار میں واضح ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں لسانی فسادات میں اضافہ ہوا لیکن نریندر مودی کی انتظامیہ نے مذکورہ مسئلے کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی‘۔
واضح رہے کہ ہومن رائٹس واچ کی ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا تھا کہ رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے لے کر گزشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔
مزیدپڑھیں: بھارت میں مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، وزیر خارجہ
ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا تھا کہ ’ان میں سے 36 افراد مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدائی تحقیقات روک دیں، طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور قتل کی واردات یا اس کی پردہ داری میں خود پولیس ملوث تھی‘۔
واضح رہے کہ شہر یت ترمیمی قانون کے خلاف پورے بھارت میں مظاہرے ہو ئے اور متعدد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ماضی میں خود کو سیکیولر ریاست کے طور پر پیش کرنے والے بھارت میں حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ کیا جس کے بعد ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور مظاہرین اسے بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟
شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔