13 مئی کو رشین ڈائریکٹ انویسٹمینٹ فنڈ (آر ڈی آئی ایف) نے بتایا کہ اس دوا کے ابتدائی کلینیکل ٹرائلز کے نتائج بہترین رہے ہیں۔
آر ڈی آئی ایف کے سربراہ کرل دیمیترف نے کہا کہ ٹرائل کے دوران کورونا وائرس کے 40 میں سے 60 فیصد مریضوں کو اس دوا کا استعمال کرایا گیا اور وہ 5 دن میں صحتیاب ہوگئے، یعنی دیگر طریقہ علاج کے مقابلے میں اس دوا سے ریکوری کا وقت 50 فیصد کم ہوگیا۔
امریکا کے بعد روس میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ اس دوا کی 330 مریضوں پر تحقیق مئی کے آخر میں مکمل ہوگی اور محققین کا کہنا تھا ہمارے تخمینے کے مطابق زیادہ بیمار افراد کی تعداد میں اس کی مدد سے 50 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی ٹیسٹوں میں معمولی سائیڈ ایفیکٹس دیکھے گئے ہیں اور حاملہ خواتین کے لیے اس کا استعمال روک دیا گیا ہے۔
بھارت میں بھی اس دوا کے ٹرائل تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔
جاپانی وزیراعظم ایبے شینزو کی جانب سے اس دوا کو 43 ممالک کو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے فراہم کیا جارہا ہے اور جاپانی حکومت رواں ماہ کے آخر میں ٹرائلز کے نتائج کے بعد اس کے استعمال کی منظوری دے سکتی ہے۔
فیوجی فلم کی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس دوا کے استعمال کا انحصار ڈاکٹروں اور سائنسی نتائج پر ہوگا۔
اس دوا کو 1990 کی دہائی کے آخر میں ایک کمپنی نے تیار کیا تھا جسے بعد میں فیوجی فلم نے خرید لیا تھا اور اسے انفلوائنزا کی ایک ایسی قسم کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، جس پر دیگر ادویات اثر نہیں کرتیں۔
اس دوا کو 2014 میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز نے افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا تھا۔
گیانا میں اس حوالے سے تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب معتدل حد تک بیمار افراد کو اس دوا کا استعمال کرایا گیا تو اموات کی شرح 30 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد تک ہوگئی۔
اب جاپانی حکومت کو توقع ہے کہ یہی فائدہ کووڈ 19 کے خلاف بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس دوا کو گولی کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ریمیڈیسیور کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے جو کہ انجیکشن کی شکل میں دی جاتی ہے۔
مذکورہ جاپانی دوا کو حاملہ خواتین کے لیے نقصان دہ بھی قرار دیا جاتا ہے، تاہم جاپان میں اسے 2014 میں استعمال کرنے کی اجازت ایمرجنسی طور پر کرنے کی دی گئی تھی جبکہ چین کو اس کی تیاری کا لائسنس بھی دیا گیا تھا۔
دوسری دوا کیموسٹیٹ کو لبلبے کی سوزش اور مختلف اقسام کے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر ماضی میں لیبارٹری اور جانوروں میں اس کی آزمائش سے معلوم ہوا تھا کہ یہ سارس کورونا وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوتی ہے۔
رواں سال مارچ میں جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ دوا اس انزائمے کو بلاک کرسکتی ہے جو کورونا وائرس کو پھیپھڑوں میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
یالے اسکول آف میڈیسین کے ڈاکٹر جوزش وینیٹز اس تحقیق کا حصہ تھے اور اب وہ اس دوا کا کلینیکل ٹرائل شروع کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا 'اس دوا کا 35 سال پرانا ٹریک ریکارڈ ہے اور یہ بہت محفوظ دوا سمجھی جاتی ہے، میں کہتا ہوں کہ ہمیں کوشش تو کرنی چاہیے، میں ای کڈاکٹر ہوں اور مریضوں کو وہ سب کچھ دینا چاہتا ہوں جو ممکن ہو'۔
وہ ابھی ٹرائل کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں 'میں سو فیصد پریقین ہوں کہ ٹرائل کے نتائج ایک ماہ میں سامنے آجائیں گے'۔
جاپانی کمپنی کی جانب سے اس دوا کوو جاپان اور بیرون ملک کووڈ 19 کے حوالے سے ہونے والی تحقیقی رپورٹس کے لیے فراہم کیا جارہا ہے جبکہ اسرائل میں شیبا میڈیکل سینٹر کی جانب سے اپریل میں اس دوا کا ٹرائل شروع کیا گیا تھا، جس کے نتائج فی الحال سامنے نہیں آئے۔