نقطہ نظر

مشکل وقت میں جو کام امریکا نے کیا، آج پاکستان بھی وہی کررہا ہے؟

ان کاموں کو ملک کے کم از کم 20 اہم شہروں میں انجام دیا جائے گا جس کے ذریعے سیکڑوں ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

ونسٹن چرچل کا قول ہے کہ 'ایک اچھے بحران کو کبھی ضائع نہ ہونے دیں'۔

کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ دنیا تیار نہیں تھی، لیکن اب جبکہ یہ وبائی مرض پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ایسے میں اس سے نمٹنے کے انداز میں چند روشن پہلوؤں کا امکان نظر آنے لگا ہے۔

جب لاک ڈاؤن نے انسانوں کو اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کردیا تو فطرت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری تیزی اور بھرپور توانائی کے ساتھ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے، اس کے ساتھ فطرت ہمیں اس بات کا بھی شدید احساس دلا رہی ہے کہ ہم جس ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں سانس لے رہے ہیں اسے تباہی کا کس قدر بڑا خطرہ خود ہم انسانوں سے لاحق ہے۔

موجودہ آفاتی صورتحال سے 2 بڑے ہی دلچسپ اسباق اخذ کیے جاسکتے ہیں۔

یہ اسباق نئے نہیں ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ دنیا انہیں بھول گئی ہے۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ 1932ء میں جب برسرِ اقتدار آئے تو امریکی معیشت بدترین کساد بازاری کی زد میں تھی۔ انہیں جلد ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ملک کے 2 بڑے وسائل ضائع ہورہے ہیں، ان میں سے ایک بیروزگار نوجوانوں کی آبادی ہے جنہیں زبردستی بیکاری اور ڈپریشن میں مبتلا کردیا گیا ہے اور دوسرا ماحول ہے جو لکڑی کی تجارت اور وسائل کو غیر ضابطہ بند طریقے سے نکالنے کے عمل کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔

ان کی جانب سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے نیو ڈیل کے نام سے پیش کیا جانے والا حل اس وقت کی بہترین کامیاب کہانیوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ حل سویلین کنزرویشن کورپس کے مرکزی ستون پر تشکیل دیا گیا تھا۔

نوجوان اقتصادی بحالی منصوبے کے پیادے بنے جنہیں ایف ڈی آر ٹری آرمی کہا جاتا تھا۔ وہ درخت لگانے، قومی پارکوں میں کام کرنے، جھیلوں میں مچھلیاں لانے، ندیوں کی صفائی کرنے اور ہنگامی امدادی کاموں کے ذمہ دار تھے۔ نوجوان جذبوں سے بھرپور فطرت کے تحفظ کے اس منصوبے کے باکمال نتائج برآمد ہوئے۔

تقریباً 10 سالوں تک 30 لاکھ سے زائد نوجوانوں کو 6 ماہ کی مدّت کے لیے ملازم رکھا گیا۔ اس دوران ساڑھے 3 ارب درخت لگائے گئے، ایکو ٹؤرازم کے مخصوص مقامات کے حامل 700 قومی پارکس بنائے گئے اور پہلے سے موجود فارسٹ سروسز کو بہتر بناتے ہوئے نیشنل پارکس سروس کی بنیاد رکھی گئی۔ معاشی کساد بازاری ختم ہوگئی لیکن اس تحریک نے ملک پر ایک انمٹ نشان چھوڑا اور فطرت اور ماحول کی قدردانی کے لیے قومی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس تحریک کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے امداد پر گزر بسر کرنے والے ڈپریشن میں مبتلا افراد کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔

بگڑتی ماحولیاتی صورتحال اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کے ساتھ معاشی بدحالی اوپر سے کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے آج پاکستان کو بھی اسی طرح کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

خوش قسمتی سے 1930ء کی دہائی کی امریکی قیادت کی ہی طرح پاکستان میں ایسی قیادت موجود ہے جو فطرت میں سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت اور اس کی افادیت کو پوری طرح سمجھتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کے کامیاب نفاذ، 5 لاکھ سبز روزگار پیدا کرکے پہلے ہی ثابت کیا جا چکا ہے کہ فطرت اور معیشت کی بحالی پہلو بہ پہلو چل سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 50 فیصد حصہ براہِ راست فطرت پر منحصر ہے اور یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ فطرت میں لگائے گئے ہر ڈالر کے نتیجے میں ممکنہ معاشی منافع اس سے 9 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا سے متعلق تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تباہ شدہ ماحولیاتی نظام اور بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے درمیان اسباب و نتائج کا تعلق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ 10 ارب درخت سونامی، کلین گرین انیشیٹو، پلاسٹک پر پابندی، برقی گاڑیوں کی پالیسی اور ریچارج پاکستان انیشیٹو کے ساتھ پاکستان کا موجودہ 5 نکاتی گرین ایجنڈا فطرت پر بھروسے اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر تشکیل دینا کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے۔

ان سب نے ہماری معیشت اور مستقبل کی پائیدار نمو میں سمتی منتقلی کے لیے بنیاد رکھی ہے۔ اس پس منظر میں، کورونا وائرس کا بحران تجدیدِ نو کے لیے ایک موقع فراہم کر رہا ہے اور ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان نے اس ہفتے ایک 'گرین اسٹیمولس' پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس میں 2 مقاصد پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

اس پروگرام کے مرکزی کاموں میں درخت لگانا، ہمارے محفوظ علاقوں کی بحالی اور نکاسی آب میں بہتری شامل ہیں۔

اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں وہ بیروزگار نوجوان، خواتین اور دیہاڑی دار مزدور شامل ہیں جو اچانک ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد دیہی علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

پروگرام میں جن 3 کاموں کو ترجیح دی جائے گی وہ وفاقی/صوبائی انتظامیہ کے ماتحت اور صرف افرادی قوت کے منتظر ہیں۔ ان کاموں کو باآسانی کورونا وائرس سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے اور یہ بیروزگار افراد کے لیے ماحولیات کے 'نگہبانوں' کے طور پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔

جہاں تک بات عمل درآمد کی ہے تو اسے 3 ہم آہنگ مراحل کے ذریعے مالی استحکام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وقت جاری مرحلے میں بجٹ کے ذریعے مالی ضروریات کو پورا کیا جا رہا ہے اور اس وقت زیادہ سے زیادہ توجہ کارکردگی کو بڑھانے اور گرین جابز کے مواقع پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔

پروگرام پر عملدرآمد جاری ہے اور وزیرِاعظم نے لاک ڈاؤن کے دوران ہی ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلے جیسی ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ 10 بلین ٹری سونامی سرگرمیوں کو شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے نتیجے میں، نرسریوں کو بڑھانے، پودوں کی دیکھ بھال، جنگلات کے تحفظ، شہد کی مکھیوں کے فارم اور آگ بجھانے کی سرگرمیوں کی شکل میں پورے ملک میں یومیہ اجرت پر 65 ہزار نگہبانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ صوبوں کے توسط سے اگلے چند مہینوں میں یہ تعداد 2 لاکھ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ کورونا وائرس کے بعد بحالی کے عمل کا مرحلہ ہے جس کے لیے مختلف غیر ملکی عطیہ دہندگان کے ذریعے خاطر خواہ امدادی فنڈز (تقریباً 6 سے 10 کروڑ ڈالر) حاصل کیے جارہے ہیں۔ اس کے ذریعے قومی پارکس سروس کے قیام اور نکاسی آب کی سرگرمیوں کے ساتھ ہی طوفان کے پانی سے متعلق انتظام، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے، ٹھوس اور مائع کوڑے سے متعلق انتظام اور ہسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے میں مدد دینے والی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار بھی بڑھایا جائے گا۔

ان کاموں کو ملک کے کم از کم 20 اہم شہروں میں انجام دیا جائے گا جس کے ذریعے سیکڑوں ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق یومیہ اجرت پر کم ازکم 6 لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

عمارتوں میں توانائی کی بچت اور اس کے مؤثر استعمال کے لیے ریٹروفٹنگ، برقی گاڑیوں پر مشتمل نقل و حمل کے نظام اور صاف قابلِ تجدید توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار جیسی ماحول دوست سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے اپنی شروع کردہ سرگرمیوں کی فول پروف شفافیت اور ساکھ کو یقینی بنانے پر کام شروع کردیا ہے، اس کے علاوہ مکمل ڈیجیٹلائزڈ پورٹل کے ذریعے گرین ملازمتوں کے لیے پورے ملک سے افراد چنے جائیں گے۔

پہلے 2 مراحل جب بھرپور انداز میں نتائج برآمد کرنا شروع کردیں گے تب تیسرے مرحلے کے لیے (فطرت کے لیے قرضہ) کے عوض رقم حاصل کی جاسکے گی اور پاکستان اپنی پہلے سے جاری سرگرمیوں پر جیتے گئے اعتماد کی بنیاد پر سبز حیاتِ نو کے حامی ممالک سے قرضوں میں رعایت کا مطالبہ بھی کرسکے گا۔

عالمی سطح پر ماحولیاتی نظام کی بحالی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے متعلق اس سمتی تبدیلی کی حمایت کے پہلے ہی قوی اشارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

معیشت کی تعمیرِ نو اور پائیدار ترقی اور نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی کے ساتھ یہ فطرت دوست گرین اسٹیمولس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کو نہ صرف معاشی کساد بازاری سے نکلنے میں مدد دے گا بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ معاشی تعمیر بلکہ سبز معاشی تعمیر کی راہ ہموار ہوگی۔

پاکستان نہ صرف دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے بلکہ نوجوانوں کی پُرعزم شمولیت اور کمیونٹی کی حمایت اور شراکت داری سے پائیدار فطری تحفظ اور موسمیاتی صورتحال کو بہتر بناتے ہوئے پہلے سے بہتر حالات کی منزل پانے کے لیے نئے راستے پر چلنے کے لیے ثابت قدم اور پُرعزم ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


ملک امین اسلم

ملک امین اسلم خان موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پاکستانی وزیرِاعظم کے مشیر اور آئی یو سی این کے عالمی نائب صدر ہیں۔ ان سے amin.attock@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے اور یہ aminattock@ پرٹویٹ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔