اسد عمر چینی انکوائری کمیشن میں پیش، کابینہ، ای سی سی کے فیصلوں پر بیان ریکارڈ
اسلام آباد: 2019 کے آٹا اور چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی کو فرانزک رپورٹ مرتب کرنے کے لیے دی گئی توسیعی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے 4 روز قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ کی جانب سے چینی اور اس کی برآمدات کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی گزشتہ ہفتے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے جنہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داری کے تعین کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر سے بھی تحقیقات کی جانی چاہیے جس کے بعد اسد عمر منگل کے روز کمیشن میں پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ چینی بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پیش کردہ انکوائری رپورٹ میں کچھ بڑے چہروں کے نام سامنے آئے تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے علاوہ پی ٹی آئی کی اتحادی قیادت کے قریبی رشتہ دار شامل تھے جنہوں نے مبینہ طور پر چینی بحران سے فائدہ اٹھایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی بحران: تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی
حالانکہ حکومت نے اپریل کے پہلے ہفتے میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا اور اسے فرانزیک آڈٹ کی رپورٹ 25 اپریل تک جمع کروانے کی ہدایت کی تھی تاہم بعد میں اس حتمی مدت میں 16 مئی تک توسیع کردی گئی تھی۔
چنانچہ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں کمیشن کے اراکین سے ملاقات کے بعد وزیر منصوبہ بندی نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ کمیشن کی رپورٹ جلد مکمل ہوجائے گی جس میں یہ بات سامنے آئے گی چینی ’اسمگل‘ کی گئی تھی یا نہیں۔
اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ اسکینڈل میں ملوث کسی شخص کو چھوڑا نہیں جائے گا اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند روز میں ہر چیز واضح ہوجائے گی اور ہر کسی کو عمران خان اور دیگر میں فرق معلوم ہوجائے گا‘۔
کمیشن نے وزیر منصوبہ بندی کو چینی کی برآمدات اور ان سبسڈیز پر ان کا مؤقف جاننے کے لیے طلب کیا تھا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے مطالبے پر کمیشن میں پیش ہوں گے تو اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’جو سوال پوچھنا ہے وہ وزیراعظم کے بجائے مجھ سے پوچھیں‘۔
مزید پڑھیں: چینی بحران: وزیر اعظم، ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں، شاہد خاقان عباسی
قبل ازیں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کمیشن کو کہا گیا کہ اس رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اگر وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کو طلب نہ کیا گیا جو چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم سیاست کی بات نہیں کرتے، ہم نے کمیشن کے سامنے حقائق رکھے ہیں، اگر ای سی سی کے (سابق) چیئرمین کو (تحقیقات کے لیے) نہ بلایا گیا تو کمیشن کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔
سابق وزیراعظم نے خود بھی کمیشن کو ایک خط لکھ کر چینی اسکینڈل کی تحقیقات میں اپنے تجربات فراہم کر نے کی پیشکش کی تھی۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی اپنی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
مزید پڑھیں: سندھ نے پنجاب کیلئے گندم کی منتقلی روک دی
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کس نے کتنا فائدہ اٹھایا
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
یہ بھی پڑیھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔