نیا کورونا وائرس طبی ماہرین کے لیے معمہ کیوں بن گیا ہے؟

نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا بھر کے طبی ماہرین کے ذہنوں کو چکرانے پر مجبور کررہی ہے، کیونکہ بہت زیادہ پھیل جانے کے باوجود اس کے بارے میں اب تک یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
ویسے تو مانا جاتا ہے کہ یہ بیماری پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے مگر یہ دماغ سے لے کر پیروں تک کہیں بھی حملہ کرسکتی ہے۔
کبھی تو ایسا نظر آتا ہے کہ مریض ٹھیک طرح سے بات کررہا ہے، چل پھر رہا ہے، کھا پی رہا ہے مگر اس کے خون میں آکسیجن کی سطح اتنی کم ہوچکی ہوتی ہے کہ اگر عام فرد کو اس کا سامنا ہو تو اس کے لیے چلنا، بولنا یا کھانا کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا بلکہ کوما یا موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
یعنی اتنی کمی جو موت کے قریب پہنچادے، اس کا بظاہر کووڈ 19 کے مریضوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا مگر کچھ دن بعد یہ مسئلہ ضرور جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ ایسے مریض اکثر وینٹی لیٹر پر جاتے ہیں ۔
لاکھوں افراد کو بیمار اور ہلاک کرنے والے اس وائرس پر عالمی ادارہ صحت کے مطابق 14 ہزار 600 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں اور اہم ترین طبی ادارے مسلسل اس کے حوالے سے اپنی ایڈوائس کو بدل رہے ہیں تاکہ نئی معلومات کے مطابق علاج کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس وائرس پر اتنی تحقیق کی وجہ بھی سادہ ہے وہ اس کا نیا ہونا اور طبی ماہرین اس کے بارے میں ابھی تک بہت کچھ جان نہیں سکے ہیں۔
ایشیا، یورپ اور امریکا سمیت دیا بھر میں 4 ماہ سے زائد عرصے کے دوران جو کچھ کلینیکل تجربات سامنے آئے ہیں ان سے یہ تو واضح ہووچکا ہے کہ یہ صرف عام نظام تنفس کا مرض نہیں اور پھیپھڑوں سے آگے بھی جاسکتا ہے۔
نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال کے صدر ڈیوڈ ریچ کا کہنا تھا 'کسی کو بھی ایک ایسی بیماری کی توقع نہیں تھی جو نمونیا اور نظام تنفس کے عارضے کے پیٹرن میں فٹ نہیں آتا'۔
یہ وائرس دل پر حملہ کرکے پٹھوں کو کمزور کرکے اس کے اہم ترین ردھم کو متاثر کرسکتا ہے۔
یہ گردوں کو اتنا نقصان پہنچا سکتا ہے کہ امریکا میں کچھ ہسپتالوں میں ڈائیلاسز مشینوں کی کمی ہوگئی۔
یہ اعصابی نظام میں گھس کر سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کو تباہ کرسکتا ہے اور دماغ تک بھی رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس جلد پر اثرات مرتب کرتا ہے۔
اس کا سب سے جان لیوا پہلو جسم میں متعدد مقامات میں خون کے ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بنانا اور شریانوں کو سوجن کا شکار کردینا ہے۔
یہ چند علامات کے ساتھ بھی شروع ہوسکتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ کوئی علامت نظر ہی نہ آئے، پھر کچھ دن بعد یہ کسی اتنباہ کے بغیر پھیپھڑوں سے ہوا کو کھینچ کر سانس لینا دشوار کردیتا ہے۔
یہ معمر، کسی بییماری سے متاثر اور موٹاپے کے شکار افراد کو زیادہ بے رحم انداز سے ہدف بناتا ہے جبکہ خواتین کے مقابلے میں مرد اس کا زیادہ شکار بنتے ہیں اور ہاں ایسی علامات بھی ہیں کہ یہ حمل کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔
یہ کم عمر بچوں کو عموماً ہدف نہیں بناتا مگر امریکا اور یورپ میں دل کی پیچیدگی کا باعث بننے والے ایک ایسی بیماری بچوں میں نظر آئی ہے جسے کورونا وائرس سے جوڑا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے اعلان کیا تھا کہ ریاست میں 73 بچے بہت زیادہ بیمار ہوچکے ہیں جبکہ ایک 5 سالہ بچہ اس پراسرار بیماری سے ہلاک ہوا جبکہ بعد مزید 2 بچے چل بسے۔
ڈیوڈ ریچ کے مطابق بچوں میں یہ بیماری ہاضمے کی علامات کے ساتھ شروع ہوتی ہے جو آگے بڑھ کر ورم سے ہونے والی پیچیدگیوں میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر گرجاتا ہے اور شریانیں پھیل جاتی ہیں، اس سے ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھتا ہے، اور پہلا بچہ اسی وجہ سے ہلاک ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کووڈ سے بالکل الگ ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں کروڑوں یا اربوں کورونا وائرسز موجود ہیں مگر انسانوں کو متاثر کرنے والے وائرسز کی تعداد اس نئے وائرس کے بعد 7 ہوگئی ہے۔
مگر اب متعدد سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ بیماری 2 طریقوں سے زیادہ تباہی پھیلا رہی ہے۔
گردوں کے امراض کے ماہرین کی سوچ بھی اسی طرح بدل رہی ہے۔