4 تو ایسے کورونا وائرس ہیں جو نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور عموماً ان پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ باقی سارس اور مرس تھے جو بہت کم عرصے میں کچھ افراد کی ہلاکت کے بعد غائب ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں سارس کوو 2 وائرس نے لگتا ہے کہ نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کی تیزی سے پھیلنے کی خاصیت اور سارس اور مرس سے جان لیوا بننے کی خاصیت کو اکٹھا کرلیا ہے۔
یہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے بیمار فرد سے صحت مند شخص میں منتقل ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور فی الحال سماجی دوری اور ماسک کے استعمال کو ہی موثر سمجھا جارہا ہے۔
ماہرین کا تو کہنا ہے کہ یہ سمجھے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کہ کووڈ 19 کس طرح اعصا کو نقصان پہنچاتی ہے اور کیسے ادویات، جینیات، غذا، طرز زندگی وغیرہ اس کی روک تھام یا پھیلاؤ میں کردار ادا کرتے ہیں۔
مشی گن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر جیفری برنز کا کہنا تھا کہ یہ وائرس 6 ماہ قبل انسانوں میں موجود نہیں تھا، مگر اب ہم تیزی سے جان رہے ہیں کہ یہ وائرس کس طرح انسانوں پر اثرانداز ہتا ہے اور اس کے علاج کے طریقوں کی شناخت کررہے ہیں۔
وبا کے آغاز میں زیادہ توجہ پھیپھڑوں پر دی گئی کیونکہ یہ وائرس بالائی اور زیریں نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے اور بتدریج پھیپھڑوں کی گہرائی میں جاکر ہوا کی ننھی نالیوں کو خلیات اور سیال سے بھرنے لگتا ہے جس سے سانس لینا مشکل ہووجاتا ہے۔
مگر اب متعدد سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ بیماری 2 طریقوں سے زیادہ تباہی پھیلا رہی ہے۔
پہلی چیز تو وائرس کی جانب سے خون کی شریانوں میں تباہی مچانا ہے جس سے مختلف حجم جیسے مائیکرو سے لے کر بڑی کلاٹس دماغ اور پھیپھڑوں میں جانے والی شریانوں میں بننے لگتی ہیں، جس سے فالج اور پھیپھڑوں میں خون کی فراہمی رک سکتی ہے۔
جریدے لانسیٹ میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر خون کی شریانوں میں موجود خلیات کو براہ راست ہدف بناتا ہے۔
دوسرا پہلو جسم کے اپنے مدافعتی ردعمل کا ضرورت سے زیادہ ردعمل ہے، جس کے باعث وہ وائرس کے ساتھ جسم کے صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔
طبی ماہرین ان پہلوؤں پر توجہ دے رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ خون پتلا کرنے والی ادویات کا استعمال بہت زیادہ بیمار افراد کی زندگی بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
جریدے لانسیٹ میں شائع تحقیق میں شامل ہارورڈ میڈیکل اسکول کے میڈیسین پروفیسر مندیپ مہرہ نے بتایا کہ خون کی شریانوں میں خلیات کو نقصان پہنچانے کے نتیجے میں پھیلنے والے ورم سے یہ وضاحت کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آخر یہ وائرس جسم کے متعدد حصوں کو نقصان کیسے پہنچاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے لیے اینٹی وائرل تھراپی سے زیادہ کی ضرورت ہے، یعنی آغاز میں یہ نظام تنفس کا وائرس ہوتا ہے مگر جب کسی کو ہلاک کرتا ہے تو یہ خون کی شریانوں کا مہلک وائرس بن چکا ہوتا ہے۔
گردوں کے امراض کے ماہرین کی سوچ بھی اسی طرح بدل رہی ہے۔
ابتدا میں وہ کووڈ 19 کے مریضوں کے گردوں کو پہنچنے والے نقصان کو وینٹی لیٹر اور مخصوص ادویات کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔
مگر پھر انہوں نے دیکھا کہ مریضوں کے گردوں کے کچرا فلٹر کرنے والے خلیات کو یہ نقصان آئی سی یو میں پہنچنے سے پہلے ہی ہوجاتا ہے اور ووہان میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس گردوں میں بھی پایا جاتا ہے، جس سے یہ قیاس لگایا گیا کہ یہ اس عضو کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آغاز میں تو یہ منفرد نہیں لگتا تھا مگر نئی معلومات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گردوں کے معمول کی انجری سے بڑھ کر ہے۔