’مجھے نوکری سے نکالا تو میں نے اپنا کام شروع کردیا اور تنخواہ جتنا کما بھی لیا‘

گزشتہ 2 ماہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے بعد نہ صرف یومیہ اجرت والے افراد کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بہت سے متمول گھرانے بھی معاشی پریشانیوں کی زد میں آئے۔
حکومت یا مخیر حضرات جتنا بھی راشن یا مالی معاونت کریں مگر متوسط طبقے کو نہ تو کوئی امداد دیتا ہے اور نہ ہی وہ خود سفید پوشی کی لکیر عبور کرتے ہیں۔ ایسے میں جو لوگ بیروزگار ہوئے انہوں نے متبادل طریقوں سے نئے کام کی تلاش شروع کی۔
بعض لوگ کاروبار کے نئے تجربات میں خاصے کامیاب ہوئے اور کچھ کے پلے ناکامی آئی۔ اس تحریر میں ہم کچھ ایسے ہی لوگوں کے تجربات کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے وبائی پھوٹ کے بیچ آمدن کے دیگر ذرائع تلاش کیے۔
شہزاد کو آن لائن کاروبار میں مشکل پیش کیوں آرہی ہے؟
شہزاد کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی ہیں اور وہاں موجود ایک بوتیک کی فیکٹری میں درزی کا کام کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بوتیک اور فیکٹری کی بندش کے باعث ان کی ماہانہ آمدنی کا ذریعہ بھی ختم ہوگیا۔ شہزاد نے معاشی بدحالی سے بچنے کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر سلائی کا کام جاری رکھنے کا ارادہ کیا۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ملبوسات کے علاوہ عروسی جوڑوں کو تیار کرنا بھی جانتے ہیں۔
مسز بلال کا پکوانوں کا کامیاب آن لائن کاروبار
مسز بلال ڈیفنس میں ایک متمول گھرانے کی خاتون ہیں۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں بطور شیف کام کرتی تھیں جبکہ ان کے شوہر سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریسٹورنٹ بند ہوگئے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے کھلنے کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔ حالات کو بھانپتے ہوئے ریسٹورنٹ کے مالک نے ملازمین کو فارغ کردیا۔
اچانک ملازمت ختم ہونے پر ان کے ماتحت عملے میں بہت مایوسی پھیل گئی لیکن مسز بلال نے ہمت باندھی اور ان کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
انہوں نے فیس بک پر Nefis کے نام سے ایک پیج شروع کیا۔ Nefis ترکی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی لذید کے ہیں۔ مسز بلال نے فیس بک پیج پر نہ صرف اپنے پکائے ہوئے پکوانوں کی خوبصورت تصاویر پوسٹ کیں بلکہ معیار کا بھی وعدہ کیا۔
چونکہ لذیذ ڈشز کی تیاری کے حوالے سے مسز بلال تو پہلے ہی اپنا نام رکھتی تھیں اور لاک ڈاؤن میں تیار کھانے پینے کی اشیا کی دستیابی بھی تقریباً ختم ہوگئی تھی اس وجہ سے انہیں بہت اچھا رسپانس ملا اور لوگوں نے خوب آرڈر بک کروائے۔
مسز بلال کو پکوانوں کا آرڈر پہلے پہل تو ان سے واقف چند افراد نے ہی دیا اور پھر فیس بک پیج پر کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے تبصرے دیکھ کر دیگر لوگوں نے بھی ان سے رابطے شروع کیے اور سلسلہ چل نکلا ہے۔
مشتاق کو کیا مشکل پیش آرہی ہے؟
زرین کے کامیاب کاروبار کی کنجی
زرین خان نے اپنی دادی کے نام سے منسوب فیس بک پیج Kaushis بنایا، اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم سے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ اگر انہیں معیاری افطاری درکار ہے تو رابطہ کریں۔
زرین خان نے یہ کام یکم مئی سے شروع کیا ہے اور ان کے پاس آرڈرز کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پہلے 2 سے 3 آرڈر ملتے تھے مگر اب یہ تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے اور اس سے زیادہ وہ آرڈرز بک نہیں کررہیں۔ زرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن پہلے آرڈر کی بکنگ لیتی ہیں۔
آخر وہ کون لوگ ہیں جو یہ آئٹم خریدتے ہیں؟ اس حوالے سے زرین نے بتایا کہ پہلے پہل جب انہوں نے اعلان کیا تو ان کے قریبی دوستوں اور جاننے والوں نے آرڈرز بک کروائے جنہوں نے پہلے ہی ان کے کھانے کا ذائقہ چکھا ہوا تھا۔ فیس بک پر لوگوں کی جانب سے کھانے کی تعریف نے دیگر لوگوں کو بھی ان کے کھانے کی جانب راغب کیا ہے۔
مسز بلال کے برعکس زرین نے اپنے آرڈرز کی ڈیلیوری کے لیے ڈیلیوری بوائے سے رابطہ کیا ہوا ہے اور وہ کیش آن ڈیلیوری کے علاوہ بینک ٹرانسفر بھی قبول کرلیتی ہیں۔ زرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں مقیم ایک فرد نے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا کہ وہ اپنے قرابت داروں کو کراچی میں افطاری بھجوانا چاہتے تھے، سو انہوں نے بل کی رقم زرین کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردی اور زرین نے آرڈر کی تکمیل کراچی کے پتے پر کردی۔
انور خان نے وہی بیچا جس کی طلب تھی
آخر میں ملتے ہیں انور خان سے جو کراچی کے نیم متوسط علاقے میں اسکول اور کوچنگ سینٹر چلاتے تھے۔ اسکول اور کوچنگ میں ملا جُلا کر کوئی 500 بچے پڑھ رہے تھے اور ماہانہ ہزاروں روپے کی بچت ہورہی تھی۔ مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی ادارے کیا بند ہوئے اچانک ہی آمدنی کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ بچوں کے والدین کا مؤقف ہے کہ جب پڑھایا ہی نہیں جارہا تو پھر فیس کس بات کی؟ انور خان کے بھائی کپڑوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے تو انہوں نے بھی بیروزگاری کے دنوں میں اس سلسلے کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
چونکہ جس وقت لاک ڈاؤن شروع ہوا اس وقت گرمی کا موسم شروع نہیں ہوا تھا اور خواتین گرمیوں کے لیے لان کے ملبوسات تیار نہیں کراسکی تھیں اس لیے انہیں لان کے سوٹوں کی فروخت میں فائدہ محسوس ہوا اور انہوں نے اپنے بھائی سے لان کے کم قیمت سوٹ حاصل کرکے گھر گھر جاکر فروخت کا سلسلہ شروع کیا۔ انور خان کا کہنا ہے کہ وہ یومیہ 2 سے 3 سوٹ فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور انہیں فی سوٹ 200 روپے کی بچت ہوتی ہے۔ یہ آمدنی اسکول اور کوچنگ کی آمدنی سے بہت کم ہے مگر روزانہ کی دال روٹی چل رہی ہے۔
اپنا کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے
نیا پن
مصنوعات کی طلب
حلقہ احباب
لچکدار رویہ
خود سے تیار کردہ مصنوعات کی اہمیت
جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے
معیار کی ضمانت
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔