لاک ڈاؤن کے بعد قومی اسمبلی پر لگا قفل کھلا تو میں نے کیا دیکھا؟
ظاہر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس لیے کافی کچھ نیا تو ہونا ہی تھا۔
تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے ارکان کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے تدارک کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تاہم جس طرح ان دنوں ہر کام ایک نیا تجربہ ہے، اسی طرح اس بار قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کا انداز بھی کسی نئے تجربے سے کم نہ تھا۔
سینیٹ اجلاس کے انعقاد کے لیے خود اس کے ڈپٹی چیئرمین مخالفت کرچکے تھے کہ ان حالات میں ارکان اور دیگر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے، دوسری طرف قومی اسمبلی کے رکن ہونے کے باوجود وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تو اعلان کردیا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کریں گے۔ وہ روزِ اوّل سے قومی اسمبلی کے روایتی اجلاس کے مخالف بنے ہوئے تھے۔
ایک طرف حکومتی اتحادی اور اپوزیشن اس بات پر بضد تھے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت روایتی انداز میں ہونا چاہیے، لیکن دوسری طرف حکومت کی یہ خواہش تھی کہ اس اجلاس کو ورچؤل اجلاس میں تبدیل کیا جائے، لیکن یہ اس لیے بھی ممکن نہ تھا کہ قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط میں اس طرح کے اجلاس کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ حکومت کو اس بات کا ادراک تھا، لیکن انہیں اس بات نے ستایا ہوا تھا کہ کسی طرح پارلیمانی سال کے 130 دن پورے کیے جائیں۔
دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن ارکان میں بھی یہ تشویش بڑھتی جارہی تھی کہ حکومت کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی اقدامات کر رہی ہے اس میں منتخب ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا، سارے فیصلے بالا بالا ہورہے ہیں، زبانی کلامی ہی سہی، لیکن منتخب ایوان کو اعتماد میں تو لینا ضروری تھا۔ یہ بات مجھے ایک حکومتی رکن نے بتائی تھی۔
اسی سبب اپریل میں ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات کے پیشِ نظر مشاورت شروع کردی تھی۔
20 اپریل کو اسد قیصر نے 3 سابق اسپیکرز سمیت ایک کمیٹی تشکیل دی، جسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ بتائے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کس طرح بلایا جائے؟ خصوصاً ان حالات میں جب کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، کیا ان حالات میں ارکان اور دیگر لوگوں کو کم سے کم خطرات میں ڈال کر قومی اسمبلی کا روایتی اجلاس بلایا جائے یا ورچؤل اجلاس کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے؟
اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں سابق اسپیکر ایاز صادق، فہمیدہ مرزا اور بابر اعوان کو شامل کیا گیا، جبکہ سیّد فخر امام جو سابق اسپیکر بھی رہ چکے ہیں ان کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ ان ارکان نے اسی دن سے مشاورت شروع کردی تھی۔
21 اپریل کو فیصلہ کیا گیا کہ تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا جائے اور ان سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے۔
22 اپریل کو مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک 7 نکاتی ریکوزیشن جمع کرائی کہ ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں اجلاس طلب کرکے بحث کروائی جائے۔ آئین کے مطابق اجلاس کی ریکوزیشن آجائے تو اسپیکر قومی اسمبلی اس بات کے پابند ہیں کہ 14 دن کے اندر اجلاس طلب کریں۔ ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے ضروری تھا کہ یا تو وہ اجلاس طلب کریں یا مسلم لیگ (ن) کو آمادہ کریں کہ وہ اپنی ریکوزیشن واپس لے، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ریکوزیشن واپس لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔