نقطہ نظر

لاک ڈاؤن کے بعد قومی اسمبلی پر لگا قفل کھلا تو میں نے کیا دیکھا؟

11 مئی، قومی اسمبلی کی تاریخ کے لیے انوکھا دن تھا، کیونکہ کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ کے بیچ بہت کچھ پہلی بار ہورہا تھا۔

ظاہر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس لیے کافی کچھ نیا تو ہونا ہی تھا۔

تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے ارکان کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے تدارک کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تاہم جس طرح ان دنوں ہر کام ایک نیا تجربہ ہے، اسی طرح اس بار قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کا انداز بھی کسی نئے تجربے سے کم نہ تھا۔

سینیٹ اجلاس کے انعقاد کے لیے خود اس کے ڈپٹی چیئرمین مخالفت کرچکے تھے کہ ان حالات میں ارکان اور دیگر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے، دوسری طرف قومی اسمبلی کے رکن ہونے کے باوجود وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تو اعلان کردیا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کریں گے۔ وہ روزِ اوّل سے قومی اسمبلی کے روایتی اجلاس کے مخالف بنے ہوئے تھے۔

ایک طرف حکومتی اتحادی اور اپوزیشن اس بات پر بضد تھے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت روایتی انداز میں ہونا چاہیے، لیکن دوسری طرف حکومت کی یہ خواہش تھی کہ اس اجلاس کو ورچؤل اجلاس میں تبدیل کیا جائے، لیکن یہ اس لیے بھی ممکن نہ تھا کہ قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط میں اس طرح کے اجلاس کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ حکومت کو اس بات کا ادراک تھا، لیکن انہیں اس بات نے ستایا ہوا تھا کہ کسی طرح پارلیمانی سال کے 130 دن پورے کیے جائیں۔

دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن ارکان میں بھی یہ تشویش بڑھتی جارہی تھی کہ حکومت کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی اقدامات کر رہی ہے اس میں منتخب ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا، سارے فیصلے بالا بالا ہورہے ہیں، زبانی کلامی ہی سہی، لیکن منتخب ایوان کو اعتماد میں تو لینا ضروری تھا۔ یہ بات مجھے ایک حکومتی رکن نے بتائی تھی۔

اسی سبب اپریل میں ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات کے پیشِ نظر مشاورت شروع کردی تھی۔

20 اپریل کو اسد قیصر نے 3 سابق اسپیکرز سمیت ایک کمیٹی تشکیل دی، جسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ بتائے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کس طرح بلایا جائے؟ خصوصاً ان حالات میں جب کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، کیا ان حالات میں ارکان اور دیگر لوگوں کو کم سے کم خطرات میں ڈال کر قومی اسمبلی کا روایتی اجلاس بلایا جائے یا ورچؤل اجلاس کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے؟

اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں سابق اسپیکر ایاز صادق، فہمیدہ مرزا اور بابر اعوان کو شامل کیا گیا، جبکہ سیّد فخر امام جو سابق اسپیکر بھی رہ چکے ہیں ان کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ ان ارکان نے اسی دن سے مشاورت شروع کردی تھی۔

21 اپریل کو فیصلہ کیا گیا کہ تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا جائے اور ان سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

22 اپریل کو مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک 7 نکاتی ریکوزیشن جمع کرائی کہ ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں اجلاس طلب کرکے بحث کروائی جائے۔ آئین کے مطابق اجلاس کی ریکوزیشن آجائے تو اسپیکر قومی اسمبلی اس بات کے پابند ہیں کہ 14 دن کے اندر اجلاس طلب کریں۔ ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے ضروری تھا کہ یا تو وہ اجلاس طلب کریں یا مسلم لیگ (ن) کو آمادہ کریں کہ وہ اپنی ریکوزیشن واپس لے، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ریکوزیشن واپس لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس

24 اپریل کو اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔

29 اپریل کو پارلیمانی رہنماؤں کا دوسرا اجلاس ہوا، اس اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کا اصرار تھا کہ قواعد و ضوابط میں ورچؤل اجلاس کی گنجائش نہیں، اور ان کو تبدیل کرنے کے لیے بھی اجلاس ہی بلانا پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بحث ہوئی کہ اگر قانون سازی ہوتی ہے تو ورچؤل اجلاس میں کس طرح ووٹنگ ہوگی؟ ورچوئل اجلاس میں قانونی رکاوٹوں کے باعث تمام پارلیمانی رہنماؤں نے اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ ورچؤل کے بجائے فزیکل یعنی روایتی اجلاس بلایا جائے۔

یکم مئی کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آگیا تو صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور ایک بار پھر 9 مئی تک قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو بند کردیا گیا۔ تاہم چند ہی دنوں میں حکومت کے سینئر پارلیمنٹرین نے صورتحال کو سنبھال لیا۔

5 مئی کو پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن کو یقین دلایا کہ وہ حسبِ معمول قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے گی، جس میں معمول کا کوئی ایجنڈا نہیں لیا جائے گا، صرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے تدارک کے اقدامات پر بات ہوگی۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ایوان میں انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں

حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اپنی ریکوزیشن واپس لے لی تو حکومت کی پریشانی ختم ہوئی، کیونکہ آئین کے تحت حکومت کو ہر صورت میں 6 مئی کو اجلاس بلانا تھا، یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے رہنماؤں کا جو اجلاس 6 مئی کو منعقد ہونا تھا اس کی تاریخ اسی دستوری تناظر میں تبدیل کرکے ایک دن پہلے اجلاس بلا کر فیصلہ کرلیا گیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آئین کے تحت 6 مئی کو اجلاس بلانا لازمی تھا۔

8 مئی کو صدرِ مملکت نے پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا، انہوں نے نہ صرف قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر آکر اپنی پرانی یادیں تازہ کیں، بلکہ قومی اسمبلی کے حکام سے اجلاس کے دوران اختیار کی جانے والے احتیاطی تدابیر کے بارے میں بھی بریفنگ لی۔

11 مئی کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، جسے صدرِ مملکت نے کچھ روز پہلے ہی طلب کیا تھا۔ اس اجلاس کی طلبی کے بعد تمام ارکانِ اسمبلی کو بذریعہ ٹیکسٹ میسج بتایا گیا کہ وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت سے قبل اپنا کورونا ٹیسٹ کروانے کے بعد ہی اجلاس میں شریک ہوں۔ ارکان کو یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ وہ اپنے ضلع میں حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ لیبارٹری سے کورونا ٹیسٹ کرائیں۔

11 مئی، قومی اسمبلی کی تاریخ کے لیے انوکھا دن تھا، کیونکہ کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ کے بیچ بہت کچھ پہلی بار ہورہا تھا، جیسے قومی اسمبلی کے ایوان میں تمام مہمانوں، ،سفرا اور وی آئی پیز گیلریوں کے لیے کسی کو بھی پاسز جاری نہیں کیے گئے اور وی آئی پی گیلری میں اکیلے ڈاکٹر ظفر مرزا ہی بیٹھے نظر آئے۔

اجلاس سے پہلے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) جاری کی گئیں، جس کے مطابق

اسی طرح صحافیوں کے لیے بھی ایس او پیز جاری کی گئیں۔

قومی اسمبلی کے یوں تو 342 ممبران ہیں لیکن ایوان کے اندر 400 سے زائد نشستیں موجود ہوتی ہیں، کیونکہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسی ایوان میں ہوتا ہے، اور اس دن 40 سے زائد مزید کرسیاں رکھ دی جاتی ہیں، تاکہ سینیٹ کے 104 ارکان بھی بیٹھ سکیں۔ اس لیے وسیع ایوان میں سماجی فاصلہ اختیار کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔

قومی اسمبلی کے گیٹ نمبر ایک پر سینیٹائزر گیٹ نصب کیا گیا تھا۔ گیٹ کے ساتھ تمام پولیس اور دیگر فورسز کے اہلکاروں نے ماسک اور گلوز پہن رکھے تھے۔ ارکانِ اسمبلی، صحافی یا عملے کا کوئی شخص سینیٹائزر گیٹ میں سے داخل ہوکر جب عمارت کے اندر داخل ہوتا تو انہیں دوسرے دروازے پر جدید ڈجیٹیل ٹیمپریچر چیک کرنے والی مشین کے ساتھ 2 افسران تعینات نظر آتے۔

اندر داخل ہونے والا شخص پہلے اس ڈجیٹیل مشین کے سامنے آکر کھڑا ہوتا تو مشین میں نصب ایک بڑے مانیٹر پر اس کے ٹیمپریچر کے ساتھ اس کی تصویر بھی آویزاں ہوجاتی، تاکہ ایک ساتھ یہ پتا لگایا جاسکے کہ آیا اس شخص نے ماسک پہنا ہے یا نہیں، اور اندر جانے والے کا ٹیمپریچر کتنا ہے۔ تیسرے داخلی دروازے پر لگے اسکینر سے گزرنے کے بعد سامنے لفٹس لگی ہیں، جہاں سے ارکان اور دیگر لوگ ایوان کے اندر داخل ہوتے ہیں۔

ارکان اور صحافیوں کے لیے بھی کورونا ٹیسٹ کا بندوبست کیا گیا تھا۔

ایوان کی کارروائی 3 کے بجائے سوا 3 بجے شروع ہوئی۔ ایوان میں ارکان کی آمد 3 بجے سے پہلے ہی شروع ہوچکی تھی۔ ارکان کی ایک بڑی تعداد نے چہرے پر ماسک اور ہاتھوں پر گلوز چڑھا رکھے تھے، لیکن کچھ ایسے بھی ممبران تھے جو بغیر ماسک اور گلوز مزے سے ایوان کے اندر گھوم پھر رہے تھے۔ کچھ خواتین ارکان جب آپس میں بات کر رہی تھیں تو انہیں سماجی فاصلے والی ہدایت یاد ہی نہ رہی۔

ہمارے قانون سازوں میں سے بہت سے ایسے بھی تھے، جنہوں نے ایس او پیز کا خیال ہی نہیں رکھا، یہی وجہ ہے کہ ایوان کی کارروائی کے دوران 4 بار ڈپٹی اسپیکر کو نہ صرف ممبران کو ٹوکنا پڑا بلکہ 2 بار وارننگ بھی دینا پڑی کہ سماجی فاصلے کا خیال رکھیں۔ اگر کسی کو گپ شپ کرنی ہے تو باہر جاکر باتیں کرے، لیکن اکثر ارکان ہنس کر ڈپٹی اسپیکر کی وارننگ کو ٹالتے رہے۔

عام دنوں میں اسپیکر کی ڈائس کے ساتھ سیکرٹری اسمبلی ڈیسک پر 3 نشستیں رکھی ہوتی ہیں، لیکن احتیاطی تدبیر کے باعث ایک نشست کم کردی گئی تاکہ ایس او پیز پر عمل ہوسکے۔ جبکہ اسپیکر روسٹرم کو مکمل طور پر بند کردیا گیا تاکہ کوئی رکن سیکرٹری ڈائس کے قریب نہ آئے، اگر کسی رکن کو بات بھی کرنی ہو تو وہ دُور سے ہی کرلے۔

خلافِ توقع قومی اسمبلی کے 11 مئی کے اجلاس میں 180 سے زائد ارکان نظر آئے، لیکن جب شام کا وقت ہوا تو 24 ہی ارکان موجود تھے اور ان ارکان کی موجودگی میں بھی ایوان کی کارروائی جاری رہی، حالانکہ کورم کے لیے 86 ارکان ضروری ہوتے ہیں۔ مراد سعید کی تقریر کے وقت جب اپوزیشن واک آؤٹ کا اعلان کیے بغیر ہی ایوان سے نکل گئی تو کچھ دیر بعد حکومتی ارکان بھی روزے کی شدت کے بہانے ایوان سے چلتے بنے۔

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔