بینگن کا قصہ یوں چھیڑا کہ ایک تو رمضان کریم میں غیبت سے بچنا چاہیے خواہ وہ غیبت بینگن ہی کی کیوں نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ لفظ بینگن نے زبانوں کی دنیا میں بڑے لمبے سفر کیے ہیں۔ بینگن کو ہلکا مت لیجیے۔ اردو محاورہ ’تھالی کا بینگن‘ بھی اسی سبزی کا مرہونِ منت ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحیم کی تحقیق کے مطابق بینگن کی اصل سنسکرت میں ’ونگن‘ ہے جس کا مطلب ہے بنگالی، یعنی بنگالی سبزی۔ سنسکرت میں اس کے لیے ایک اور نام بھی ہے اور وہ ہے ’واتنگن‘۔ یہ لفظ فارسی میں گیا تو ’باتنگان‘ بن گیا۔ اس میں ’ت‘ کی جگہ ’د‘ بھی آتا ہے یعنی بادنگان، اور ’گ‘ کی جگہ ’ج‘ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی بادنجان۔
فارسی سے عربی میں گیا تو وہاں باذنجان ہوگیا۔ عرب سے طویل سفر کرکے ہسپانیہ پہنچا تو وہاں برنجینا (Berenjena) ہوگیا۔ پڑوسی ملک پرتگال میں پہنچا تو آخری ’ن‘ کو ’ل‘ سے بدل دیا گیا اور یہ برنجیلا ہوگیا۔ بھئی، بڑی مشکل سبزی ہے۔ ابھی برطانیہ کا سفر باقی تھا۔ انگریزوں نے اس کی پرتگالی شکل میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اسے برنجل (Brinjal) بناکر کھانے لگے۔ شاید اس طرح اس کا بادی پن کم ہوجاتا ہو اور برطانوی نوابین کو ’نفق‘ نہ ہوتا ہو۔ ابھی سفر رکا نہیں، چنانچہ ہسپانوی زبان میں اس کی ایک شکل البرنجینا (Al Berengena) بھی ہے۔
AL عربی کا حرفِ تعریف ہے۔ جب بینگن نے فرانس میں داخل ہونا چاہا تو عربی کا AL آڑے آگیا۔ فرانسیسی زبان کو عربی کے AL سے چڑ ہے۔ اسے جہاں بھی AL نظر آتا ہے اسے AU سے بدل دیتی ہے، مثلاً PALM کو PAUME کردیا، اور ALTAR کو بدل کر AUTEL بنادیا، چنانچہ فرانسیسیوں نے ہمارے بینگن کو آبرجین (Aubergine) بنادیا۔
جرمن، ڈچ، سوئیڈش زبانوں نے فرانسیسی ہی کا اتباع کیا۔ ابھی بینگن کو ترکی بھی جانا ہے۔ یہاں اس نے ’ب‘ کو ’پ‘ اور پہلے ’ن‘ کو ’ل‘ سے بدل دیا اور یہ ’پاطلیجان‘ (Patlican) بن گیا۔ ترکی زبان میں ’ج‘ کی جگہ C استعمال کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی یہی C ہے۔ یہ کروٹیں لیتا ہوا روس میں جاگھسا۔ وہاں یہ ’بکلژان‘ بن بیٹھا۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ پنجابی میں اسے ’بتاؤں‘ کہتے ہیں۔ کیوں کہتے ہیں؟ کیا بتاؤں۔ لیکن ایک بات سمجھ میں آگئی ہے کہ سحری میں بینگن نہیں کھانے چاہئیں۔
بات جسارت میں شائع ہونے والے مضامین کی آئی تو ہم پرانی فائل دیکھنے لگے۔ ایک خاتون نے اپنے مضمون کا آغاز اپنے طور پر ایک شعر سے کیا کہ
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
میرے شہر میں کیا سماں ہوگیا
بے وزن اور بحر سے خارج شعر لکھنے میں کوئی ہرج نہیں، لیکن قافیہ بدلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مذکورہ شعر میں ماجرا کا قافیہ سماں باندھ کر عجب سماں باندھ دیا۔ ویسے تو دوسرا مصرع یوں ہے ’کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا‘۔ ایسی شاعری سے گریز زیادہ اچھا ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔