ہر ملک کا اپنا الگ بینگن اور اس کا الگ نام

بعض غلط العوام الفاظ اردو میں اس طرح جم کر بیٹھ گئے ہیں کہ صحیح ہونے ہی میں نہیں آرہے۔ انہی میں سے ایک لفظ ’اژدہام‘ ہے۔ گزشتہ دنوں یہ اژدہام جسارت میں بھی نظر آیا۔ اصل لفظ ’ازدحام‘ ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے۔ عربی میں ’ژ‘ نہیں ہوتی۔ جانے یہ لفظ کیسے فارسی زدہ ہوگیا۔
غلط العوام اور غلط العام کا فرق تو قارئین جانتے ہی ہیں۔ غلط العام فصیح ہوتا ہے، اور یہ وہ ہے جسے ہر خاص و عام، پڑھا لکھا اور ناخواندہ ایک ہی طرح سے بولے یا لکھے۔ اور غلط العوام وہ ہے جسے عام لوگ غلط بولیں اور لکھیں، مگر پڑھے لکھے لوگ، ادیب و شاعر وغیرہ اس سے اجتناب کریں۔
غلط العوام میں خود ’عوام‘ بھی شامل ہوگیا ہے جسے اب متعدد افراد مؤنث بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر علمیت کا مظاہرہ کرنے والے بھی عوام کو مؤنث بنانے پر تلے ہوئے ہیں کہ عوام یہ کرتی ہے، عوام باہر نکلی ہوئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کسی ایک ہی جملے میں مؤنث اور مذکر دونوں ہوتے ہیں۔
ایک اور لفظ یا ترکیب ’نقصِ امن‘ ہے۔ اس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے، ایک بار پھر سہی کہ بقول شاعر ’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں‘ یا بدلیں۔ نقصِ امن کا مطلب تو ہوا امن کا نقص۔ جب کہ صحیح ہے ’نقضِ امن‘۔ عربی کا لفظ ہے اور ’نقض‘ کا مطلب ہے: ٹوٹ پھوٹ، بگاڑنا، توڑنا۔ ’نقضِ امن‘ کا مطلب ہوا: امن بگاڑنا، امن توڑنا۔ ’نقضِ عہد‘ کا مطلب ہوا: عہد شکنی، وعدہ خلافی۔ نقص (بالفتح) بھی عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: کم ہونا، کجی، کوتاہی، کسر، عیب، نقص نکالنا یعنی عیب نکالنا۔ قرآن کریم میں اموال میں نقص کا ذکر ہے یعنی اموال میں کمی۔
لاہور سے ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’آپ دوسروں کی غلطیاں تو بڑی دل جمعی سے پکڑتے ہیں، کبھی ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے مضامین پر بھی نظر ڈالیں۔ 22 اپریل کو ایک صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ’ابھی کل ہی شب قدر گزری ہے‘۔ ان کو داد دینا چاہیے کہ انہوں نے شعبان کے مہینے میں شب قدر تلاش کرلی، حالانکہ حدیثِ رسولﷺ کے مطابق شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ انہوں نے شب برأت کو شب قدر سمجھ لیا۔
ارے بھائی، یہ غلطی نظر سے چوک گئی۔ خود ہم سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ اہلِ علم ہماری اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت افسوس ضرور ہوتا ہے کہ بہت پڑھے لکھے لوگ جب تلفظ میں گڑبڑ کرتے ہیں۔ احمد فراز جیسے شاعر کے برخوردار شبلی فراز بھی غلط (غَ۔لط) کو غلْط ہی کہتے ہیں۔ ان کی پیشرو معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے پاس تو غلط تلفظ کا جواز تھا۔
یہ قصہ تو سن ہی رکھا ہوگا کہ ایک نواب صاحب گھر کے باہر بیٹھے تھے کہ سبزی والا بینگن لے کر گزرا۔ نواب صاحب نے اس سبزی کی تعریف کی، شاید حیدرآبادی بینگن کھائے ہوں گے۔ مصاحب نے فرضِ مصاحبی ادا کرتے ہوئے کہا کہ جناب اسی لیے تو اس کے سر پر تاج ہے۔ اس وقت تک کورونا سامنے نہیں آیا تھا جس کا مطلب بھی تاج یعنی کراؤن ہے۔
نواب صاحب نے رات کو بینگن کھائے تو گرانی کرگئے۔ اگلے دن جب سبزی والا گزرا تو نواب صاحب نے منہ بناکر کہا ’بڑی واہیات سبزی ہے‘۔ مصاحب نے کہا ’اسی لیے تو اس کا رنگ کالا ہے‘۔ دوسرے مصاحب نے کہا کہ کل تو آپ تعریف کررہے تھے۔ جواب میں کہا کہ میں نواب کا ملازم ہوں، بینگن کا نہیں۔ ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا جس کا اطلاق موجودہ درباریوں اور مصاحبین پر بھی ہوتا ہے۔
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
میرے شہر میں کیا سماں ہوگیا
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔