کووڈ 19 کا باعث بننے والے کورونا وائرس پر لیبارٹری ٹیسٹوں میں انکشاف ہوا کہ یہ بالائی نظام تنفس، آںکھوں کی سطح کے خلیات میں سارس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔
جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق میں پہلی بار شواہد فراہم کیے گئے کہ یہ وائرس انسانوں کو دونوں داخلے کے مقامات سے بیمار کرسکتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے انسانی نظام تنفس کی نالی اور آنکھوں کے ٹشوز کا معائنہ لیبارٹری میں کیا اور نئے نوول کورونا وائرس کا موازنہ سارس اور ایچ 5 این 1 سے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ نیا وائرس آنکھوں کی جھلی اور بالائی نظام تنفس کو سار کے مقابلے میں 80 سے سو فیصد زیادہ متاثر کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے سارس کے مقابلے میں کووڈ 19 کے بہت زیادہ پھیلنے کی بھی وضاحت ہوتی ہے جبکہ نتائج سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ آنکھیں بھی انسانوں کو متاثر کرنے کے لیے اس وائرس کی اہم گزرگاہ ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج سے عالمی ادارہ صحت کے اس مشورے کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آنکھوں کو چھونے سے گریز کریں جبکہ ہاتھوں کو اکثر دھونا عادت بنالیں تاکہ انفیکشن سے بچ سکیں۔
اس سے پہلے ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ وائرس اسٹین لیس اسٹیل اور پلاسٹک کی سطح پر ایک ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایسے آثار موجود ہیں کہ ہانگ کانگ میں اس وبا کی صورتحال قابو میں آچکی ہے مگر دنیا کے دیگر حصوں میں صورتحال تاحال سنجیدہ ہے، روزانہ متعدد کیسز کی تصدیق ہورہی ہے تو ہمیں لاپرواہی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
اس تحقیق کے نتائج سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو ماسکس اور حفاظتی ملبوسات کے ساتھ ساتھ خاص گلاسز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اس سے پہلے ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون میں نزلہ اور کھانسی جیسی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں البتہ ان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی، جس کے بعد معلوم ہوا کہ اس وائرس نے ان کی آنکھ کو متاثر کیا تھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کورونا وائرس دیگر جسمانی اعضاء کی نسبت آنکھ میں طویل عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔
وہ خاتون جن کی آنکھوں کو اس وائرس نے متاثر کیا ان کی عمر 65 سال ہے، وہ اٹلی سے چین کے شہر ووہان پہنچی تھی جہاں ان میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔