مزید کے لیے کلک کریں
شہرِ کراچی میں تو ایسا کوئی منظر دیکھنے کو نہیں ملا سو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم ہی شہر میں بسے جانوروں کے پاس جاکر ان سے حال چال پوچھ لیں مطلب چڑیا گھر کا رخ کرلیں۔
اب بے زبانوں کو دیکھا تو جاسکتا ہے لیکن کلام کیسے ہو، لہٰذا ہم نے ان کے رکھوالوں سے بات چیت کی کہ کراچی کے چڑیا گھر میں کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے بیچ کیسا ماحول ہے۔ وہاں جانور پچھلے 2 ماہ سے انسانوں کے بغیر کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ آیا وہ خوش ہیں یا اُداس؟ اور وہاں کا نظامِ زندگی کیسا چل رہا ہے؟ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے اور دیگر ملازمین اپنے کام کیسے سر انجام دے رہے ہیں؟
لاک ڈاؤن کے دوران کراچی زولوجیکل گارڈن میں کیسا ماحول ہے؟ کراچی زولوجیکل گارڈن المعروف چڑیا گھر میں داخل ہوتے ہی کراچی کی جُھلسا دینے والی لُو کی تپش کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ گھومنے پھرنے کے بعد گھنے اور سایہ دار درخت کافی راحت بخشتے ہیں۔ جو ٹھنڈک اور تسکین ان درختوں کے نیچے بیٹھنے سے ملتی ہے اسے محسوس کیے کئی دن ہوچلے تھے۔
چڑیا گھر کے ہارٹی کلچرلسٹ، ضامن عباس کا کہنا ہے کہ یہاں تقریباً سو ڈیرھ سو سال پرانے املی، بڑ و دیگر اقسام کے درخت موجود ہیں۔ سب سے بڑا انگریزوں کے دور کا برگد کا درخت بھی یہاں ہے جس کی عمر تقریباً 200 سال ہے۔
چڑیا گھر میں ہم نے کیا دیکھا؟ لوگوں سے خالی چڑیا گھر اور پنجروں میں خاموش بیٹھے جانور بھی لوگوں کے منتظر نظر آئے۔ بنگال ٹائیگر کی مادہ شیرنی ریچل اپنے پنجرے میں چل پھر رہی تھی۔ ریچل کا ساتھی الیکس 2016ء میں انتقال کرگیا تھا۔ وہ اکیلی اور بہت ہی اداس نظر آئی۔ انتظامیہ کو اس کا جوڑا مکمل کرنا چاہیے۔
بن مانس کے جوڑے نے ہمارا ایسا اچھل کود کر استقبال کیا جیسے وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ مگر یوریشین نسل کے سفید شیر جو پنجرے کے بیچوں بیچ اپنے خاندان کے ساتھ دھوپ سیک رکھا تھا اس نے ہمیں نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور اپنی مکمل حاکمیت اور جاہ و جلال کے ساتھ ساکن بیٹھا رہا۔ اس جوڑے نے تصویر کھینچنے پر بھی اپنی نگاہ کا زاویہ نہ بدلا۔ دوسری طرف مقامی کچھوؤں نے ہماری تصویر نگاری پر اتنی توجہ ضرور دی کہ رینگتے ہوئے ہمارے پاس آنے لگے اور یہی کام شتر مرغ اور بطخوں کے ہجوم نے بھی کیا۔
ہتھنیاں کچھ غصے میں لگیں اور طوطے اور بندر تو اپنی دنیا میں مست بیٹھے تھے۔ ایشیائی مقامی کالے اور بھورے مصری ریچھ نے تصویر کے لیے ہماری دوڑیں لگوادیں، ہم جدھر بھی جائیں، تو وہ صاحب دوسری طرف نکل جائیں۔
ہم جس وقت جانوروں کا نظارہ کر رہے تھے اس وقت ان پر پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا جارہا تھا اور صفائی کا عمل جاری تھا۔ چڑیا گھر میں ہر طرف سناٹا تھا ماسوائے طوطوں کی بولیوں اور بطخوں کی کویک کویک کے۔
مغل گارڈن میں بھی صفائی کا عمل جاری تھا اور نئے موسم کے پودوں کی پنیریاں لگائی جارہی تھیں اور کچھ ملازمین اپنے فرائض انجام دیتے نظر آرہے تھے۔ مغل گارڈن کے ہیڈ مالی کا کہنا تھا کہ ہم یہاں روز ہی آرہے ہیں۔ آج کل یہاں موسمی پھولوں کی پنیریاں لگائی جارہی ہیں۔ گلاب کی ساری قسمیں یہاں لگائی گئی ہیں اس کے علاوہ ناریل اور کچھ پھولدار درختوں کو بھی اگایا جا رہا ہے۔
چڑیا گھر کے انتظامی امور کراچی زولوجیکل گارڈن کے ڈائریکٹر کنور ایوب کا کہنا ہے کہ 'کراچی چڑیا گھر ایک خود کفیل ادارہ ہے۔ سال بھر میں کراچی چڑیا گھر میں تقریباً 14 لاکھ 34 ہزار افراد سیر کے لیے آتے ہیں اور ایک ماہ میں یہ تعداد ایک لاکھ 19 ہزار 600 ہوتی ہے، یوں یہ چڑیا گھر اپنا خرچہ اپنے وسائل سے خود پورا کرتا ہے۔ ہم اس کا سالانہ بنیادوں پر بجٹ بناتے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم کام جانوروں کی غذا ہے۔ اس کا سالانہ خرچہ 5 کروڑ ہے جبکہ 25 سے 30 لاکھ جانوروں کی دواؤں پر خرچ کیے جاتے ہیں'۔
کنور ایوب کہتے ہیں کہ 'لاک ڈاؤن کے دوران ہمارا اسٹاف کم ہوکر 25 سے 30 فیصد رہ گیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہے۔ ساتھ ہی ہم نے کورونا وائرس سے جانوروں کو بچانے کے لیے ان کی دیکھ بھال پر مامور 50 برس یا اس سے زائد عمر کے افراد کو چھٹی پر بھیج دیا ہے. دوسری بڑی وجہ کراچی کے چڑیا گھر میں ایک عرصے سے خالی آسامیوں پر بھرتیوں کا نہ ہونا ہے جس کے سبب ہمیں پہلے ہی ملازمین کی کمی کا سامنا تھا اور اب اس کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن نے مزید تنگ کردیا ہے، لیکن ہماری ٹیم اپنے تمام کام سرانجام دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے'۔
لاک ڈاؤن کے دوران کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اس حوالے سے کنور بتاتے ہیں کہ 'اب چونکہ کراچی چڑیا گھر عوام کے لیے بند ہے لہٰذا ٹکٹ، جھولوں اور کینٹین سے جمع ہونے والا ریونیو بھی پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہم اگرچہ خود کفیل ادارہ ہیں لیکن روز مرہ کے امور کو چلانے کے لیے ہمیں یقیناً مالی امداد کی ضرورت رہے گی۔ ریونیو کا سب سے بڑا حصہ جانوروں کے کھانے پینے کی مد میں خرچ ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی طور پر کوئی کمی نہیں ہوئی۔ فی الحال تو ہم جیسے تیسے خرچہ چلا رہے ہیں لیکن آگے چل کر یقیناً مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے'۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کنور ایوب نے بتایا کہ 'غیر یقینی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے میئر کراچی وسیم اختر صاحب کو خط لکھا ہے کہ وہ حکومتِ سندھ سے چڑیا گھر کے مسائل پر بات چیت کریں۔ حکومتِ سندھ پہلے بھی مشکل وقتوں میں ہماری مدد کرچکی ہے'۔
اس مدد سے متعلق انہوں نے بتایا کہ '16ء-2015ء کے دوران سندھ حکومت نے چڑیا گھر کو 10 کروڑ کی گرانٹ جاری کی جبکہ دوسری بار 18ء-2017ء کے دوران کراچی چڑیا گھر کو 13 کروڑ کی گرانٹ ملی۔ اس مالی امداد کی وجہ یہی تھی کہ کراچی چڑیا گھر میں ترقیاتی کام جاری تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے چڑیا گھر کو عوام کے لیے بند کرنا پڑا تھا لہٰذا ہم اس بار بھی امید کرتے ہیں کہ حکومت سندھ ہمارے لیے گرانٹ جاری کرے گی'۔
کراچی زولوجیکل گارڈن کی زولوجسٹ عابدہ رئیس پچھلے 26 سال سے یہاں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ظاہر سی بات ہے کہ جانوروں کو تو ان کے حال پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اسٹاف اور ہم روزانہ آرہے ہیں اور اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد جانوروں کے رویوں میں اس حد تک ضرور فرق پڑا ہے کہ وہ پُرسکون ہوگئے ہیں۔ ان کے قدرتی اظہار کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ خوش ہوتے ہیں تو آوازیں نکالتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ بن مانس کیسے اچھل رہا تھا۔ بچوں کو دیکھ کر بن مانس ہی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ چیختا ہے۔ ہاتھی بھی بچوں کو دیکھ کر چھنگاڑتا ہے۔
عابدہ رئیس نے جانوروں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چڑیا گھر میں ممالیہ جانوروں کی 30 اسپیشیز ہیں اور ان اسپیشیز کے 136اقسام کے ممالیہ جانور ہیں جبکہ یہاں پرندوں کی 22 اسپیشیز ہیں اور ان کی 396 اقسام کے پرندے موجود ہیں۔ اسی طرح یہاں رینگنے والے والے جاندارو ں کی 17 اسپیشیز ہیں اور ان اسپیشیز کے 184 قسم کے رینگنے والے جانور چڑیا گھر میں رکھے گئے ہیں۔
چڑیا گھر کے ویٹرینن ڈاکٹر عامر اسمٰعیل بتاتے ہیں کہ '1998ء میں چڑیا گھر کے اندر ہی جانوروں کا ہسپتال بنایا گیا تھا۔ جہاں آپریشن کرنے سے لے کر ایکسرے کرنے کی سہولت بھی ہے۔ ہم نے جانوروں کے چھوٹے موٹے آپریشن سے لے کر ان کے سی سیکشن تک کیے ہیں۔ ایک دفعہ ریچھ نے دوسرے ریچھ کو ایسے ٹکر ماری کہ اس کے پھیپھڑے متاثر ہوگئے تھے اور اس کا علاج بھی ہم نے یہیں کیا'۔
یوسف مسیح، ہاتھی کے ساتھی یوسف بچوں کے پسندیدہ جانور ہاتھی کے ساتھ گزشتہ 35 سال سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'میں نے مہابت کے ہیلپر کے طور پر یہاں ملازمت شروع کی تھی۔ میرے استاد یعنی مہابت کا انتقال ہوگیا جس کے بعد مجھے ان کی جگہ پر نوکری پر رکھ لیا گیا۔ میں ہاتھی کا رکھوالا بھی ہوں اور ڈرائیور کی پوسٹ بھی میری ہے۔ میں نے انارکلی کو بھی ٹرینڈ کیا تھا۔ انارکلی سب سے پرانی ہتھنی تھی۔ ایشیائی نسل کی ہونے کی وجہ سے وہ انسانوں سے زیادہ مانوس تھی۔ 2006ء میں 65 سال کی عمر میں انارکلی کی موت کے بعد 3 سال تک چڑیا گھر ہاتھی سے محروم رہا'۔
یوسف نے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ ’2009ء میں چڑیا گھر نے جنوبی افریقہ سے 4 ہاتھی منگوائے تھے اور انہیں سفاری پارک میں ٹرینڈ کیا گیا تھا۔ چڑیا گھر کی 2 ہتھنیوں کے نام بڑے ہی دلچسپ ہیں، ایک کا نام مدھوبالا اور دوسری کا نورجہاں ہے۔ سفاری پارک میں ایک ہتھنی اور ایک ہاتھی موجود ہے۔ ان افریقی ہاتھیوں پر بچوں کی سواری اس لیے نہیں کی جاتی کہ یہ انسانوں سے اتنے مانوس نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ غصے میں بے قابو ہوجاتے ہیں اس لیے احتیاط کرنا بہتر ہے۔ بچے ابھی بھی اس کے پاس آکر خوش ہوتے ہیں‘۔
لاک ڈاؤن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو روز ہی آرہے ہیں چاہے جتنی بھی مشکل ہو کیونکہ یہ جانور ہم سے مانوس ہیں اور ہم سے ہی سنبھلتے ہیں۔ ہم اگر گھر پر بیٹھ جائیں گے تو یہ کھانا کس سے مانگیں گے؟ ہم صبح 8 بجے سے شام 6 تک ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ یہ کیلا، گنا، شکر قندی، بھٹہ، تربوز اور گاجر کھانا پسند کرتے ہیں۔ ہتھنیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ناراض نہیں کھڑیں بلکہ انہیں ابھی کیلے کھانے ہیں۔ انہیں ہر 2 گھنٹے بعد کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم صبح صاف ستھرائی کے لیے انہیں دوسرے پنجرے میں لے جاتے ہیں۔ پانی ڈال کر ان کو فریش کردیتے ہیں۔ یہ پانی سے کھیلتے ہیں، ہم لوگ بھی اس کے ساتھ پانی میں نہاتے ہیں، مستی کرتے ہیں۔ یہ مستی میں خوب چیختا چلاتا ہے اور جب غصے میں ہوگا تو اپنے کان کھڑے کر لے گا‘۔