پاکستان

حکومت دروازہ کھول رہی ہے جس سے وبا پھیلے گی، پی ایم اے

کراچی میں صرف 63 وینٹی لیٹرز ہیں، ہمارے ہاں کورونا کیسز میں اضافہ ہورہا ہے لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے، ڈاکٹرز

سندھ کے سینئر ڈاکٹروں نے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدشہ ہے کیسز میں اضافہ ہوگا اور ہمارے ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے ڈاکٹروں کی دیگر تنظیموں کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ دروازے کھول رہے ہیں جس سے یہ بیماری اور وبا پھیلے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ڈاکٹرز اپنی قوم اور اپنے مریضوں کے لیے تیار ہیں، ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے، یہ ہمارے ضمیرکی بات ہے'۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم عمران خان کا 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان

پی ایم اے کا کہنا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے پروٹوکول کے مخالف چلنا ہماری قوم کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا'۔

لاک ڈاؤن کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو مریضوں کے لیے سہولیات میں اضافہ کرنا ہوگا جو ہم سجھتے ہیں کہ ابھی تک نہیں ہے، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بہت برا حال ہے، مریض ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں گھوم رہے ہیں لیکن کسی کی رہنمائی نہیں کی جارہی'۔

پی ایم اے اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سمیت دیگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت نے آج سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اصولی فیصلہ کیا ہے جبکہ پی ایم اے اور دیگر ہماری تنظیمیں سخت لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر پر عمل کے لیے عوامی آگاہی پر زور دے رہی ہیں تاکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو'۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت مؤثر طبی سہولیات عمل میں لائے، اس وقت کراچی کے 5 سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے لیے مخصوص کیے گئے بستروں (وینٹی لیٹرز) کی تعداد 63 ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جب اس کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ 'اگریہی صورت حال رہی تو ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس سے حفاظتی اقدامات کے فقدان کی تحقیقات کروانے کی درخواست

احتیاطی تدابیر کی جانب حکومت کی توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جس کو ہم لاک ڈاؤن کہتے ہیں اس کو سبزی مارکیٹ، نادرا کے دفتر کے باہر اور جہاں کوئی چیز تقسیم ہورہی ہے وہاں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جلوس لگا ہوا ہے جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر نظر رکھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جس کو لاک ڈاؤن کہا جارہا ہے اس کو ہم جو سمجھتے ہیں وہ لاک ڈاؤن نہیں ہے، ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں اور جب نرمی ہوگی تو پھر کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کرے'۔

اپنی بات کے دوران ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کیسے حالات ہوں گے اور ہم سمجھتے ہیں حالات خراب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لاک ڈاؤن پر مکمل عمل نہیں کیا جارہا تھا تو بھی کیسز میں اضافہ ہورہا تھا اور اب جب کیسز کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہورہا ہے تو بندشوں میں نرمی کی جارہی ہے جس پر ہمیں تشویش ہے'۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جب کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو لاک ڈاؤن برقرار رہتا ہے اور جب کیسز میں کمی آتی ہے تو بتدریج نرمی کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہورہا ہے کہ جب کیسز بڑھ رہے ہیں تو لاک ڈاؤن میں نرمی کررہے ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن ہے کہ جب گراف نیچے آنے لگے تو لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کی جائے، ہمیں تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کی ذمہ داری عوام پر ڈالی جارہی ہے جبکہ ہمارا مطالبہ ہے حکومت خود ایس اوپیز پر عمل کروائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں ہمارا ایک ساتھی ڈاکٹر فرقان کا انتقال ہوا کیونکہ جب مریض ہسپتال میں آتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے ہمارے پاس بستر نہیں ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس کو ایک نظام کے تحت لایا جائے۔

مزید پڑھیں:ڈاکٹروں کا حکومت سے لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا مطالبہ

دوران گفتگو ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ایک سینٹریلائزڈ نظام ہو تاکہ ہسپتال میں جگہ نہیں ہو تو مریض کو دوسرے ہسپتال کا بتایا دیا جائے اور ایک ہیلپ لائن ہو تاکہ ایمبولینس کو بھی پتہ ہو کہ کس ہسپتال میں جگہ ہے اور کہاں جانا ہے، اس کے لیے ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے جو انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں لگتا ہے کہ اب مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جبکہ ملک بھر کے ڈاکٹروں نے جس تشویش کا اظہار کیا تھا وہ درست ثابت ہورہی ہے'۔

حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اسی فیصلے کو برقرار رکھنا ہے تو خدارا صحت کے ڈھانچے کو درست کریں، ہم پہلے ہی رو رہے تھے مچھر اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نہیں نمٹ سکتے تو ایسے میں کورونا وائرس آگیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ جب کیسز میں اضافہ ہوگا تو ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے جگہ بھی بنانی ہوگی، اس وقت کراچی میں صرف 63 وینٹی لیٹرز ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کے پاس 20 ڈسپوزیبل وینٹی لیٹر ہیں اس کے علاوہ 60 وینٹی لیٹر ہیں جو تشویش کی بات ہے۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر اقدامات نہیں کیے گئے تو اس طرح ہم مریضوں کو سنبھال نہیں سکیں گے، ہسپتالوں میں سہولیات دینی ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا علاج کرنے والے طبی عملے کو فرنٹ لائن فوجی کہا جاتا ہے لیکن آپ نے نہتے لوگوں کو بھیج دیا ہے، اس وقت 800 ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف بیمار ہیں اور آئسولیشن میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریض علاج کے لیے ہسپتال جارہا ہے اور جو ان کاعلاج کررہے ہیں وہ آئسولیشن کے لیے گھروں کو جارہے ہیں،لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس دی جائیں۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ ہمیں حفاظتی کٹس دینے کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں جو کمی کی ہے اس کو واپس لیا جائے گوکہ صوبائی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ کمی نہیں ہوگی بلکہ الاؤنس بھی دیا جائے گا۔

کورونا وائرس کے علاج کے دوران جاں بحق ہونے والے ڈاکٹروں کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے اب تک جاں بحق ہونے والے ہمارے 10 ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ جاں بحق ڈاکٹروں کے اہل خانہ سے معلوم کریں کہ کس حال میں ہیں اور ان ڈاکٹروں کے لواحقین کے لیے پیکج کا اعلان کریں۔

ڈاکٹروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گھروں سے کورونا وائرس کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے بہتر اقدامات کریں اور پولیس کو گھروں میں نہیں بھیجیں کیونکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور لوگ اس سے کتراتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:'لاک ڈاؤن سے متعلق وفاق کے ساتھ چلیں گے، پیر سے فجر سے شام 5 تک دکانیں کھلیں گی'

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل اعلان کیا تھا کہ 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کی جائے گی۔

قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کیا اور عوامی مقامات کو بند کیا لیکن مجھے پہلے دن سے یہی خوف تھا کہ ہمارے حالات یورپ، چین سے مختلف ہیں اور ہم نے جو لاک ڈاؤن کرنا ہے وہ مختلف ہوگا کیونکہ یہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والا دار طبقہ ہے اور ہمیں خدشہ تھا کہ اگر سب بند کردیا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے تمام صوبوں کی مشاورت سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے کیے، پاکستان میں کیسز اور اموات کی شرح آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے لیکن آج ہم یہ کہہ نہیں سکتے کہ اس وبا کا عروج ایک ماہ میں آئے گا یا 2 ماہ میں آئے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں چھوٹے دکاندار، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد، رکشہ و ٹیکسی ڈرائیورز مشکل میں ہیں، ہمیں خدشہ ہے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعت مکمل طور پر بند نہ ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں لیکن عقل مندی سے، اگلے مرحلے میں ہماری کامیابی میں پاکستانیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا، اگر اس وقت ہم ایک قوم بن کر خود احتیاط کریں اور منظم طریقے سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر عمل کریں۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں، ہم یہ نہیں سمجھتے کہ پولیس جا کر چھاپے مارے اور اس پر عمل درآمد کروائے کیونکہ آزاد اور مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا، عوام کو اگر مشکل مرحلے سے نکلنا ہے تو حکومت ڈنڈے کے زور پر نہیں کہہ سکتی کہ نماز کے دوران فاصلہ رکھیں، حکومت کتنی فیکٹریوں میں جائے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر مشکل وقت سے نکلنا ہے تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اگر پھر سے کورونا وائرس کے کیسز بڑھ گئے اور لوگوں نے احتیاط نہ کی تو ہمیں سب بند کرنا پڑے گا، وقت آگیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے اثرات سے بچنے کے لیے ذمہ دار شہری بن کر تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔

اقوام متحدہ: امریکا کا کورونا کے باعث جنگ بندی کیلئے ووٹ دینے سے انکار

’لاما میں پائے جانے والی اینٹی باڈیز سے کورونا کا علاج ممکن‘

غیر رسمی شعبوں سے وابستہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد لاک ڈاؤن سے زیادہ متاثر